انعام یافتہ لوگ

50 / 100
محمدفہیم

روحانیت فضل کی ایک کیفیت ہے اس کو اگر مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو انسان عبادات و ریاضت کے ذریعے پاکیزگی کی اس منزل پر پہنچ جائے جہاں اس کا ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن بھی منور ہو جائے۔

بطور اشرف المخلوقات انسان دیگر تمام مخلوقات سے برتر ہے لیکن یہ اصطلاح حقیقتاً صرف ان انسانوں کے لیے ہے جو اللہ اور اس کے حبیب ﷺکے عشق میں، اللہ کی رضا کے لیے ہر شہ سے بے نیاز ہوکر اپنی زندگی کا محور و مقصد محض رضائے الٰہی بنا لیتے ہیں۔

اس لئے روحانیت کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ روحانیت تعویز گنڈوں، عملیات یا دعاوٴں کا نام نہیں بلکہ روح کی حقیقت سے آشنا ہو کر خالق حقیقی سے صرف ظاہری نہیں بلکہ باطنی حقیقی رابطہ قائم کرنا ہے۔

ڈاکٹر علامہ محمداقبال نے کیا خوب کہا تھاکہ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے ہر انسان کو زندگی میں کبھی نا کبھی کسی پیر کامل کی ضرورت پڑتی ہے۔

بسااوقات زندگی اس موڑ پرآکرضرور کھڑی ہوجاتی ہے جب ہمیں لگتاہے کہ ہمارے لبوں اوردلوں سے نکلنے والی دعائیں بے اثر ہوگئی ہیں۔ہمارے سجدے اورہمارے پھیلائے ہوئے ہاتھ رحمتوں اورنعمتوں کواپنی طرف موڑ نہیں پارہے اوریوں لگتاہے جیسے کوئی تعلق تھا جوٹوٹ گیا ہے.

پھر انسان کادل چاہتاہے کہ اب اس کے لئے کوئی اور ہاتھ اٹھائے۔کسی اور کے لب اس کی دعابارگاہ رب العزت تک پہنچائیں۔کوئی ایساشخص جس کی دعائیں قبول ہوتی ہوں جس کے لبوں سے نکلنے والی التجائیں اس کے اپنے لفظوں کی طرح واپس نہ موڑ دی جاتی ہوں۔

جب ایسی صورتحال درپیش ہوتی ہے تو پھرانسان کسی پیر کامل کی تلاش کے لئے سرگرداں ہوجاتاہے۔ادھر ادھر بھاگناشروع کرتاہے۔دنیا میں کسی ایسے شخص کی تلاش میں جو کاملیت کی کسی ناکسی سیڑھی پر کھڑا ہو۔کیونکہ

نگاہ ولی میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی

انعام یافتہ لوگوں کی یہ تلاش اس میں ایک نئی جستجو پیدا کرتی ہے۔۔۔درحقیقت ہم جو زندگی بسرکررہے ہیں اس پر غوروفکرکریں تو اس کے دور خ سامنے آتے ہیں۔ایک دنیاوی اور دوسرا دینی ہے اور یہ دونوں رخ ہماری زندگی کے انتہائی لازمی جزو ہیں۔

اس سے نہ تو ہم منہ موڑ سکتے ہیں اورنہ اس کے بغیرہماری زندگی کی گاڑی آگے بڑھ سکتی ہے۔ گویاہماری زندگی کے اِن دونوں خانوں میں جب تک اعتدال وتوازن قائم نہیں ہوجاتااس وقت تک نہ ہماری دنیاوی زندگی کامیابی سے ہمکنارہوسکتی ہے اور نہ ہی ہماری دینی زندگی فلاح کے پل صراط سے گزرسکتی ہے۔

اب یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ ہماری دنیاوی اور دینی زندگی میں اعتدال وتوازن کیسے قائم ہو،اورہم کون سا عمل کریں جس سے ہماری دنیابھی حسین رہے اور ہماری آخرت بھی سنورجائے ؟تو اِس سلسلے میں عرض ہے کہ کتاب وسنت پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے والی بزرگ ہستیوں اولیاء اللہ سے بھی محبت و عقیدت رکھنی ہوگی۔

اولیائے کرام نے ایک دنیا منورکی ہے اور یہ سلسلہ اولیائے کرام سے نہیں بلکہ انبیاء کرام علیہم السلام سے شروع ہوا ۔انسان کی ہدایت کےلئے اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن وسنت دی ۔اور ان کی روشنی میں عمل کے طریقوں سے آگاہی کے لئے انبیاء کو بھیجاگیا۔

انبیاء نے دین اسلام کی تبلیغ کی۔اسی طرح جب انبیاء کا دور اختتام پذیر ہوا توان کی جگہ اولیائے کرام آگئے اور انہوں نے لوگوں کو اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایااور اسلام کی روشنی سے سرفراز فرمایا ۔

یہ حقیقت ہے کہ جس طرح قلبی اطمینان کے لیے قلب کاتزکیہ ناگزیر ہے اسی طرح خداشناسی کے لیے خودشناسی بھی انتہائی ضروری ہے، اگر ہم واقعی خودشناسی اورخدا شناسی کے طلب گار ہیں تو یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے دلوں میں اولیاء اللہ کی عقیدت ومحبت کو راسخ کریں،ان کی صحبت اختیارکریں اوران کی تعلیمات کو اپنائیں۔

یہ فطری بات ہے کہ جب ہم کسی سے محبت کرتے ہیں تواخلاقی طورپر اس کی چھوٹی سے چھوٹی بات کوبھی نظرانداز نہیں کرپاتے ،بلکہ اس کی ہر بات کوبسروچشم قبول کرلیتے ہیں،چاہے اس کی وجہ سے ہمیں کتنی ہی مشکلات کا ہی سامنا کیوں نہ کرنا پڑے.

یعنی ہمیشہ اور ہرحال میں اس کی رضا وخوشنودی کے طالب رہتے ہیں،اسی طرح اولیاء اللہ سے جب ہماری محبت گہری اور سچی ہو گی تو یقیناً ہم ان کی تعلیمات انسان دوستی،عزت واحترام،عیب پوشی اور اس طرح کے دوسرے اعلی ایمانی اور اخلاقی اقدار سے حصہ پائیں گے.

جب ہمارے اعمال وکردارمیں ان کی تعلیمات رچ بس جائیں گی تو پھر ہماری دنیا بھی بن جائے گی اورہماری آخرت بھی سنورجائے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس پہلو پر بھی نظر رکھنی ہوگی کہ ہم جن اولیاء اللہ سے محبت وعقیدت رکھتے ہیں اس میں ہم کہاں تک سچے ہیں اور ہماری یہ عقیدت ومحبت کہیں رسمی تو نہیں؟

کیا کہیں ہم صرف ذاتی خواہشات کے پورا ہونے یاپھر مالی فوائد کی تکمیل کےلئے ہی تو ان بزرگان دین کے آستانوں پر ماتھا ٹیک رہے ہیں۔۔۔میرے خیال میں اس کی حقیقت کو چانچنے کا آسان ساطریقہ یہ ہے کہ ہم اپنااپنامحاسبہ کریں.

یہ دیکھیں کہ جن اولیاء اللہ سے ہم محبت و عقیدت کے دعویدار ہیں ان کے اعمال وکردار کا اثر ہماری دنیاوی اوردینی زندگی پر کس قدر ہے؟ ان کی تعلیمات پر ہم کہاں تک عمل کررہے ہیں اگر ہم انہیں اپنی دنیاوی ودینی زندگی میں نافذ کریں.

جس طرح ان بزرگان دین نے ایک دوسرے کی عزت نفس کا خیال رکھا اور عیب پوشی کے ساتھ اختلاف کی صورت میں بھی اتحاد واتفاق کادامن نہیں چھوڑا،اسی طرح ہم بھی ایک دوسرے کی عزت نفس کا خیال رکھیں۔۔۔کیونکہ روحانیت کی راہ پہ چلنا ہے تو دل سے حسد،منافقت ، نفرت ،تکبر اور اٰنا کو نکالناپڑے گا۔

روح کا رشتہ دو لوگوں سے استوار ہوتا ہے۔جس طرح عبادت کرنے سے پارسائی ملتی ہے اور نیکی کرنے سے رب ملتا ہے۔ اسی طرح روح ایک احساس کا نام ہے جسے محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن چھوا نہیں جا سکتا۔

Comments are closed.