دفاعی خود مختاری
راحیل نواز سواتی
اسرائیل نے قطر پر حملہ کر کے قطر کی داخلی سلامتی اور سالمیت کو نقصان پہنچایا, قطر دفاع کے لئے امریکہ پر انحصار کرتا ہے کیونکہ قطر میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ موجود ہے اس کے باوجود اسرائیلی حملہ روکنے کے لیے امریکہ نے کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہیں کی حالانکہ امریکہ کے ساتھ تعلقات مستحکم رکھنے کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ کے چند ماہ قبل کے دورہ مشرق وسطیٰ میں قطر نے 400 ملین ڈالر کا بوئنگ 747 طیارہ تحفتاً ڈونلڈ ٹرمپ کو دیا لیکن یہ بھی بے سود رہا
قطر سمیت تمام خلیجی ممالک کسی نہ کسی درجے میں دفاع کے لیے امریکہ اور مغربی ممالک پر انحصار کرتے ہیں ان ممالک کے درمیان مشترکہ دفاعی معاہدہ بھی موجود ہے جس کے تحت کسی ایک رکن ملک پر حملہ پورے GCC پر حملہ تصور کیا جائے گا (Collective Defense Principle) اور رکن ممالک کو ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کو فوجی مدد فراہم کرنا لازمی ہوگا
خلیجی ممالک کی اسرائیل کے ساتھ 1948، 1967 اور 1973 کی جنگوں کی تلخ یادیں ہیں، 1948 کی پہلی عرب اسرائیل جنگ فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کے نتیجے میں عرب ممالک نے فوجی مداخلت کی مگر ناقص تیاری اور مربوط کمانڈ کے فقدان کے باعث اسرائیل نے زیادہ تر علاقہ اپنے کنٹرول میں لے لیا.
،1967 کی چھ روزہ جنگ میں عرب-اسرائیل کشیدگی میں مصر نے اسرائیلی شپنگ روٹ بند کر دیا جس پر اسرائیل نے حملہ کر کے مصر کے 400 سے زائد طیارے زمین پر تباہ کر دیے اور غزہ، مغربی کنارے، مشرقی یروشلم، گولان کی پہاڑیوں اور صحرائے سینا پر قبضہ کر لیا اس شکست نے عرب دنیا کو زبردست نفسیاتی دھچکا پہنچایا.
اسی طرح 1973 کی یومِ کپور جنگ میں مصر اور شام نے اسرائیل کے 1967 میں کئے گئے قبضے واپس لینے کے لیے حملہ کیا ابتدا میں عرب ممالک نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں مصر نے سوئز نہر عبور کر کے کامیابی حاصل کی لیکن چند دنوں بعد اسرائیل نے امریکی مدد سے جوابی حملہ کیا.
اسرائیل نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا اگرچہ عرب دنیا کو کچھ سیاسی کامیابیاں ملیں اور مصر نے بعد میں اسرائیل سے امن معاہدہ کر کے صحرائے سینا واپس لے لیا مگر فوجی لحاظ سے اسرائیل اپنی برتری قائم رکھنے میں کامیاب رہا.
ان جنگوں کے بعد خلیجی ممالک نے اقتصادی امور کو ترجیح دی اور اسرائیل کے ساتھ جنگ سے اجتناب کی پالیسی اپنائی اور دفاعی امور میں امریکہ اور یورپی ممالک کے مرہونِ منت ہو گئے لیکن 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل نے فلسطین پر حملہ کیا اور تب سے آج تک 70 ہزار کے قریب فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے.
سوا لاکھ کے قریب لوگ زخمی ہیں اسرائیل نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ فلسطین کے بعد لبنان، شام، یمن، ایران اور اب قطر پر حملہ کر کے چھ ممالک کو نشانہ بنایا دو سال میں مجموعی حملوں کی تعداد 14 ہزار ہے اور یہ واضح پیغام ہے کہ خطے میں اسرائیل جو چاہے کر سکتا ہے اور اسے روکنے والا کوئی نہیں
تاریخ کا یہ وہ موڑ ہے جہاں اگر خلیجی ممالک نے دفاعی خود انحصاری کے بجائے کسی اور پر انحصار جاری رکھا تو ان کے وجود کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں یہ ممالک پاکستان سے سبق لے سکتے ہیں جو کہ ایک ترقی پزیر ملک ہے اور وسائل کی فراوانی نہ ہونے کے باوجود دفاعی خود مختاری کا راستہ اپنایا.
پڑوسی پانچ گنا بڑے دشمن ملک بھارت کے جواب میں ایٹمی صلاحیت حاصل کی جس کے حصول میں بے شمار رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کیا اور آج ایک ایٹمی طاقت ہے پاکستان نے بری، بحری اور فضائی دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنایا اور چند ماہ قبل بھارت کے خلاف معرکہ حق میں اسے ناک رگڑائی.
چین جیسا ملک جو کہ جنگوں سے اجتناب کرتے ہوئے ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اپنے دفاع پر بھرپور توجہ دے رہا ہے 3 ستمبر کو بیجنگ میں ہونے والی چین کی عظیم الشان فوجی پریڈ میں چین نے اپنی عسکری طاقت کا مظاہرہ کر کے دنیا کو حیران کر دیا اور یہ واضح پیغام دیا کہ چین اپنے دفاع سے غافل نہیں.
اسرائیل کی جارحیت سے بچنے کے لیے خلیجی ممالک کو ماضی کی جنگوں کی تلخیوں کو بھلا کر دفاعی خودمختاری کو اپنانا ہوگا اس کے لیے ایک مربوط حکمت عملی اپنانا، دفاعی توازن پیدا کرنا اور امریکہ کے ساتھ ساتھ چین و روس کے ساتھ دفاعی تعلقات کو بتدریج بڑھانا ضروری ہے.
اس کے ساتھ پاکستان اور ترکیہ سے بھی دفاعی معاونت حاصل کرنا چاہیے آج کے دور میں جنگیں فوجیوں کی تعداد سے نہیں بلکہ جدید دفاعی تحقیق، ٹیکنالوجی کے حصول اور اس کے مؤثر استعمال کی تربیت سے جیتی جاتی ہیں.
اسی بنیاد پر قلیل المدت، وسط المدت اور طویل المدت پالیسیوں کا تعین اور ان پر سنجیدہ محنت خلیجی ممالک کو دفاعی خودمختاری کی راہ پر ڈال سکتی ہے، یہی ان
کی بقا اور سلامتی کی درست سمت ہے۔
دفاعی خود مختاری
Comments are closed.