بندوں میں یہ خاصیت خال خال ہوتی ہے
محبوب الرحمان تنولی
یہ توپڑھا تھا انسان سماجی جانور ہے۔
ایک دوسرے کے بغیر رہا نہیں جاسکتا۔ پیدائش سے دنیا کو الوداع کہنے تک کبھی کسی کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے تو کبھی ہم خود کسی کا سہارا بنتے ہیں۔
مگرجب سماج ہی کنارا کرتا جائے تو یہ جانور کیا کرے؟
کج شہردے لوک وی ظالم سن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
ہماری عادتیں ہی دوسروں سے الگ ہوں۔
مروجہ زیست،رسم و رواج،شوق،اپنی پروفائل نمایاں کرنا۔ خود کونکھار نکھار کرپیش کرنا، سوشل میڈیا پر دھڑا دھڑ اپنی تصاویرانڈیلتے رہنا۔سارے دن کی ایکٹویٹیز اٹھا کر فیس بک ٹوئٹر پہ ڈال دینا اپنا مزاج نہ ہوتو کیا کریں۔
اب ایسا بھی نہیں کہ زندگی میں رنگ نہیں ہیں۔
شاعری، سپورٹس،کلچر،خبروں کی دنیا اور بہت کچھ اب بھی لائف کاحصہ ہے۔
کبھی کبھی متذکرہ سیگمنٹس بھاتے بھی ہیں،لطف بھی دیتے ہیں لیکن سماج کا تجربہ زیادہ کامیاب نہیں رہا۔
ہمیشہ احباب اورقریبی لوگوں سے کہتا ہوں دوسروں کی شکایات نہ کیا کریں، شکایات فاصلے بڑھا دیتی ہیں۔
توقعات کم رکھا کریں کیونکہ دوسروں سے توقعات مایوس کرتی ہیں۔
کسی کو خوش دیکھ کرحسد نہ کریں،کسی کی دولت کا خود سے موازانہ نہ کریں، قناعت اور عاجزی خدا کو پسند ہے۔ دوسروں کو جلد معاف کرنے کی عادت ڈالیں کیونکہ معاف کرنابھی اللہ کریم کو پسند ہے۔۔ معاف کرنا خداکی صفت ہے اوراسی لئے اللہ کے نام پہ معاف کرنے والے لوگ اللہ کوپسند آتے ہیں۔
دوسروں کےلئے آسانیاں پیدا کرنےمیں جواطمینان ہے وہ فرحت شاید کسی اورکام میں نہیں ہے مگراس میں اخلاص بہت ضروری ہے، ٹارگٹڈ نیکیاں رائیگیاں چلی جاتی ہیں کیونکہ وہ اس سخاوت کی طرح ہوتی ہیں جوخدا کے راستے میں بھی ہم لوگوں کو دکھانے کےلئے کرتے رہتے ہیں۔
عملوں کا دارومدارنیتیوں پہ اسی لئے ہے کہ خالص نیت رائی کے دانے جتنی بھی ہوتو پہاڑایسی ہوتی ہے۔۔۔ اور اخلاص سے عاری احسان یا نیکی پہاڑ جتنی بھی ہو تورائی کے دانے کی اتنی وقعت نہیں رکھتی۔
انسان کو وقت،تجربات،افراد،مواقعوں اوربدلتے حالات وواقعات سے سیکھتے رہنا چائیے، زیادہ اچھا یہ ہوتا ہے ہرعمل کا پہلے مثبت پہلوتلاش کیا جائے، کیونکہ منفی سوچ کے ساتھ دوسروں کی عبادتیں بھی دکھاوا لگتی ہیں۔
انسان کی اصل شخصیت وہی ہوتی ہے جو اس کی پیٹھ پیچھے بیان کی جاتی ہے کیونکہ منہ پہ تو آپ بااثراور اختیار والے ہیں تو لوگ تعریفیں کرتے ہیں۔ بے اختیاربھی ہوں تو منہ پہ تعلق خراب نہیں کرتے ، سوائے ان گنے چنے چند ایک کے جنھیں دوسروں کو نیچا دکھانے کا عارضہ لاحق ہوتا ہے۔
زندگی بذات خودایک لیبارٹری ہے جس میں ہرطرح کے لوگوں کی چانج کا عمل جاری رہتاہے،لیکن یہ چانج بھی مثبت ہونی چائیے، ہم لوگوں کواپنے نفع نقصان کے پیمانے پر ماپیں گے تو ہردوسرا آدمی فیل ہوتا نظرآئے گا، زمینی حقائق ،مفادات،تعلقات کی نوعیت اورضرورت کوپیش نظررکھیں تونتائج برعکس مرتب ہوں گے۔
ہمارے حلقہ احباب میں شامل لوگ اکثر دوسروں کا گلہ کرتے ہیں کہ فلاں بدل گیا، فلاں کے ساتھ نیکی کی تھی، اس کے مشکل وقت میں کام آیا تھا آج وہ کسی جوگے ہوا ہے تو تیور ہی بدل لئے، اب تو پہچانتا ہی نہیں، اطوار ہی بدل لئے۔
یہ شکایات تب ہوتی ہیں جب ہم دوسروں کے ساتھ کچھ اچھا اس لئے کرتے ہیں کہ ہمیں بھی اچھا رسپانس ملے گا، آگے چل کراس کی وجہ سے ہمیں یہ فائدہ ہوگا وہ آسانی ہوگی۔۔جذبہ خالص ہو، نیکی صرف ایک انسان کو آسانی فراہم کرنے کی غرض سےکی گئی ہواور مستقبل میں صلہ کی امید نہ باندھی گئی ہوتو پھرہمیں شکایات نہ ہوں۔
ان تجربات سے بھی بہتوں کو گزرتے دیکھا ہے کہ ان کی دوستیاں،دشمنیاں مفادات کی وجہ سے بدلتی رہتی ہیں، رشتے داریاں کچھ لواور کچھ دو سے باہرنہیں نکلتیں،یہ طرز عمل بھی معقول نہیں ہے۔ ہرتعلق کی اپنی جگہ اوراہمیت ہوتی ہے، مشکل وقت میں کسی نے دوری اختیارکرلی، کنارا کرلیا تو گلہ کیسا۔۔ مفادات کا سفر وہاں ختم ہوگیا جہاں ہم دوسروں کو آسانیاں یا کچھ دے نہیں سکتے۔
مزہ تب ہے ہم اس سب کچھ کے باوجود بھی اپنے اسی مقام پہ کھڑے ہوں جہاں کھڑے تھے،کسی کو کچھ دینے کا قابل نہ بھی ہوں تو چھیننے والے نہ بنیں، کسی کی زندگی کی راہ میں پھول نہیں بچھا سکتے تو کانٹے بھی نہ بٹھائیں، ہم مثبت رہ کرکبھی نہ کبھی دوسروں کو یہ احساس دلانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں کہ ہم اتنے برے نہیں تھے جتنے سمجھا گیا۔
زندگی جینے کاڈھنگ ہرکسی کا جدا ہے، کوئی مادی تبدیلیوں،چکاچوند، سوشل میڈیا، فیشن، امرا اور بااختیارلوگوں سے تعلقات اورجن سے فائدہ کی امید ہو، ان کی پیروی اوررنگ ڈھنگ میں ڈھل جاتا ہے، کسی کو یہ سب کچھ متاثر نہیں کرتا صرف انسانوں کے رویوں پہ تکیہ کرتا ہے۔
جب آپ خود کو اکیلا محسوس کرنے لگیں ، بھیڑ میں تنہائی کا احساس ہونے لگے، دوسری کی توجہ ملنا ختم ہوجائے تو اس پرمایوس ہونے کی زرا ضرورت نہیں،زندگی انہی نشیب وفراز کا نام ہے، جو حلقہ مفادات اورضرورتوں کی وجہ سے آپ کے قریب آتا ہے، جب ان کی توقعات پوری ہوناختم ہوجائیں تو پرندوں کی طرح کہیں اوربسیرا کرتے ہیں، ممکن ہے ہمارے مقابلے میں انھیں دوسری جانب زیادہ آسانی اورفائدہ میسر ہو۔
بہتر یہ ہے اس سماج کا تماشا دیکھتے جائیں،برا کرنے والوں کے ساتھ بھی برا نہ کریں ، دور ہونے والوں کے ساتھ بھی مشکل میں قریب ہوجائیں،اپنی رغبت کا پیمانہ نہ بدلیں، ہاں بس دوسروں سے توقعات باندھنا چھوڑ دیں کیونکہ بغیرغرض کے صرف خدا بندوں کے ساتھ رحم دلی اور میرٹ کا سلوک کرتا ہے بندوں میں یہ خاصیت خال خال ہوتی ہے۔
Comments are closed.