روضہ رسول کے خادم آغااحمد علی جنت البقیع میں سپردخا ک

فوٹو: سبق

مدینہ منور( شاہ جہاں شیرازی)روضہ رسول اور خادم حجرہ مبارکہ آغا احمد علی یاسین جو گزشتہ روز انتقال کر گئے تھے ان کی نماز مسجد نبوی میں ادا کرنے کے بعد جنت البقیع میں سپرد خاکردیاگیا۔

اس حوالے سے اردو نیوز کی رپورٹ میں سبق ویب سائٹ کے حوالے سے بتایا گیاہے کہ مسجد نبوی شریف کے موذنوں کے اکاؤنٹ میں کہا گیا ہے کہ روضہ اطہر اور حجرہ مبارکہ کے خادم آغا احمد علی یاسین کی وفات کے بعد اب مدینہ منورہ میں صرف تین آغا حیات ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اغوات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں حرمین شریفین کی خدمت کے لیے خود کو وقف کر دینے والے باکمال، خوش خصال اور منکسر الحال لوگ ہیں۔ ان کی اپنی ایک تاریخ ، تہذیب اور قاعدے قانون ہیں۔

اغوات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی تاریخ

مسجد نبوی شریف میں اغوات کی تاریخ ملک الناصر صلاح الدین بن ایوب کے عہد سے شروع ہوتی ہے۔ وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے مسجد نبوی شریف کی خدمت کے لیے اغوات تعینات کیے تھے۔

ہر دور میں اغوات کا لباس منفرد رہا ہے۔ معروف سیاح ابن بطوطہ نے ان کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے اغوات خوش اطوار ہوتے ہیں۔ ان کے ملبوسات دلچسپ انداز کے ہوتے ہیں۔ اغوات کے سردار کو شیخ الحرم کہا جاتا ہے۔

اغوات لفظ جمع ہے، اس کا واحد آغا ہے۔ آغا غیر عربی لفظ ہے۔ یہ ترکی، کردی اور فارسی زبانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کردی اپنے شیوخ اور بزرگوں کو آغا کہتے ہیں۔ ترک سردار اور سربراہ کے لیے آغا کا لفظ استعمال کرتے ہیں جبکہ فارسی میں آغا خاندان کے سربراہ کے لیے بولا جاتا ہے۔

آغااحمد یاسین کے انتقال کے بعد اب مدینہ منورہ میں صرف تین آغا حیات ہیں، مسجد نبوی شریف میں ان کے لیے ایک مخصوص جگہ ہے جسے دکة الاغوات کہا جاتا ہے۔ یہ جگہ مسجد نبوی شریف کے ایک گوشے میں ہے۔

رپورٹ میں کہا گیاہے کہ ماضی قریب تک یہ لوگ وہاں سفید عمامہ، رنگین شال اور کمر پر بیلٹ باندھے ہوئے مستعد شکل میں بیٹھے نظر آتے تھے۔ جونہی انہیں خدمت کے لیے طلب کیا جاتا فوراً ہی اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔

بعض روایات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اغوات کا رواج حبشی قبائل کے یہاں سے شروع ہوا ہے۔ یہ قبائل اپنی اولاد کو کم عمری میں نامرد بنا دیتے اور انہیں حرمین شریفین کی خدمت کے لیے وقف کردیا کرتے تھے۔

نئے اغوات حرمین شریفین کے کارکنان کی مدد سے تلاش کیے جاتے تھے۔ حرمین شریفین کے کارکن جب بھی حبشہ جاتے تو انہیں آغا والی خصوصیات کے حامل افراد تلاش کرنے کی ذمہ داری دے دی جاتی تھی۔

جب ان میں سے کسی ایک کو مطلوبہ شخص مل جاتا تو وہ اس کی اطلاع شیخ الاغوات کو دیتا اور وہ حرمین شریفین میں خدمت کے لیے رسمی تقرری کی خاطر اس کی درخواست حکام کو پیش کردیتا۔
اغوات حرمین شریفین میں صفائی، نظم و ضبط اور خواتین و مردوں کو الگ الگ کرنے کے کام پر مامور ہیں۔ اسی طرح سے جب مسجد نبوی شریف بند کی جاتی تو اغوات ہی خواتین کو مسجد سے نکالنے کی ذمہ داری انجام دیتے تھے۔

اغوات کارِ خیر کے لیے مشہور رہے ہیں۔ ان میں عالم فاضل اور فقیہ بھی گزرے ہیں۔ مدینہ منورہ کے بعض اغوات نے فلاحی کاموں اور ضرورت مندوں کی مدد میں بڑا نام کمایا۔ ان میں ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے مساجد، مدارس اور رباطیں قائم کرائیں۔

بتایا جاتاہے کہ قباء کے محلے میں موجود مسجد آلآغا اس کا روشن ثبوت ہے،یہ مسجد اب بھی موجود ہے۔ اغوات کے نام سے رباط کا وقف بھی پایا جاتا ہے۔ اغوات اپنی امارت کے لیے مشہور ہیں۔ ان کا کوئی وارث نہیں ہوتا اور نہ انہیں اپنی دولت کسی کو ہبہ کرنے یا اس میں تصرف کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔

ان کی موت پر ان کی املاک ادارہ اوقاف کے حوالے ہوجاتی ہیں۔ ان کی نہ اولاد ہوتی ہے اور نہ نسل۔ ان کا سلسلہ ان کی موت پر ختم ہوجاتا ہے،الاغوات کا محلہ مدینہ منورہ کے مشہور محلوں میں سے ایک ہے۔

اس کی گلی باب جبریل کے سامنے سے شروع ہوکر اور باب جمعہ کی جانب چلتی تھی، الاغوات محلے کے گھر عام طور پر بڑے پرانے طرز کے ہوتے تھے۔ یہ مٹی اور اینٹوں کے بنے ہوتے تھے۔ دو اورتین منزلہ ہوتے تھے۔ الاغوات محلے کی کئی گلیاں مشہور ہیں۔

حرمین شریفین کی عظیم الشان خدمات کے اعتراف کے طور پر سعودی عہد اقتدار میں اغوات کو بڑی قدر و منزلت حاصل ہوئی۔ 1346 ھ میں سعودی عہد کے آغاز ہی سے اغوات کے ساتھ خصوصی برتاؤ شروع کردیا گیا۔

بانی مملکت شاہ عبدالعزیز نے ایک شاہی فرمان جاری کرکے واضح کیا کہ اغوات حرم ماضی کی طرح مستقبل میں بھی اپنی خصوصی حیثیت پر قائم رہیں گے، کسی کو بھی ان پر نہ اعتراض کا حق ہوگا اور نہ ان کے امور میں کوئی مداخلت کا اختیار ہوگا۔

شاہ عبدالعزیز کی وفات کے بعد شاہ سعود نے 4 ربیع الاول 1374 ھ کو اپنے والد کے فرمان کی تصدیق و توثیق کرتے ہوئے مندرجہ ذیل فرمان جاری کیا:

ہم اغوات الحرم کو ان کے نظم ونسق پر جوں کا توں برقرار رکھتے ہیں، کوئی شخص بھی ان کے امور میں نہ تو مداخلت کرے گا اور نہ اغوات کے لیے کسی قسم کی پریشانی کا باعث بنے گا۔

اغوات بتاتے ہیں کہ خادم حرمین شریفین شاہ فہد ہر سال ان کے نام شاہی تحفہ بھیجا کرتے۔ وہ ان کے لیے مشلح بھی ارسال کیا کرتے تھے۔ یہ تحفہ انہیں مسجد الحرام اور مسجد نبوی شریف کی جنرل پریذیڈنسی کے توسط سے ملا کرتا تھا۔

سعودی حکومت انہیں تنخواہیں دیتی ہے۔ علاوہ ازیں اوقاف سے ہونے والی آمدنی ان میں برابر برابر تقسیم کردیتی ہے۔ اغوات کے اوقاف مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، جدہ، طائف اور الاحساء میں پائے جاتے ہیں۔ بیرون مملکت عراق، مراکش اور یمن میں بھی اغوات کے لیے اوقاف ہیں۔

ماضی میں اغوات حرمین شریفین میں خدمات انجام دیا کرتے تھے، ان میں مطاف کو دھونا، حرمین شریفین کو کبوتروں کے فضلے سے صاف کرنا اور شمعیں روشن کرنا وغیرہ شامل تھا۔

ماضی قریب تک اغوات صرف چار کام انجام دیتے رہے ہیں،بادشاہ اور ان کے ہمراہ آنے والے وفد کے استقبال میں حصہ لینا،ریاست کے مہمان سربراہوں، وزراء اور ان کے ہمراہ آنے والی شخصیتوں کی خدمت، ان کے لیے قالین بچھانا اور آب زمزم پیش کرنا۔

طواف کے دوران خواتین کو مردوں سے علیحدہ کرنا اور اذان کے بعد خواتین کو طواف سے روکنا،مسجد نبوی شریف میں اغوات روضہ مبارکہ کی صفائی پر ماموررہے ہیں، ضرورت پڑنے پر مہمانوں کے لیے روضہ کا دروازہ کھولتے تھے، سرکاری مہمانوں کو باب سلام پر خوش آمدید کہتے۔ تھے۔

Comments are closed.