سیاسی انا کا بھاری بوجھ
سردار اویس
ان اقتدار کی راہوں میں جہاں انا غالب ہو جائے، وہاں عوام کے خواب اور نظام دونوں دب جاتے ہیں۔
وقت کی رفتار بعض اوقات اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ ماضی کے تجربات، نصیحتوں اور ناکامیوں کی آوازیں بھی سنائی نہیں دیتیں۔ کہا جاتا ہے کہ طاقت انسان کو اندھا نہیں بناتی بلکہ اس کی اصل پہچان کھول دیتی ہے۔ گاندھی کہتے تھے کہ اقتدار انسان کا امتحان نہیں، اس کا چہرہ ہے۔ جس لمحے کسی کو طاقت ملتی ہے، وہ اپنی حقیقت سے پردہ اٹھا دیتا ہے۔
تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اقتدار صرف کرسی کا نام نہیں بلکہ کردار کا امتحان ہے۔ گاندھی نے جب نمک کی ایک چٹکی سے سامراج کو چیلنج کیا، تو اس کے پیچھے کوئی فوج نہیں تھی، کوئی نعرہ نہیں، صرف عزم اور مسکراہٹ تھی۔ گاندھی کی سیاست میں اصول تھے، وعدے کم مگر وعدوں کی پاسداری زیادہ تھی۔ مگر آج کے دور کے سیاستدان نعرے زیادہ اور نیت کم رکھتے ہیں۔ وہ جسدِ سیاست کو جوش سے تو زندہ رکھتے ہیں، مگر اس میں ہوش کی روح نہیں پھونک پاتے۔
عمران خان صاحب بھی شاید اسی تیز رفتار تاریخ کے مسافر ہیں، جو ہر موڑ پر ایک ہی غلطی کو نئے نام کے ساتھ دہراتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کی سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا کہ وہ اپنے نظریات سے زیادہ اپنی انا کے اسیر رہے۔ ہر فیصلہ، ہر تعیناتی، ہر تجربہ بس اسی پیمانے پر ہوا کہ ’’میرے ساتھ کون مخلص ہے؟‘‘ گویا ریاست کا نظم و نسق نہیں، کسی ذاتی دربار کی وفاداریوں کا حساب ہو رہا ہو۔
پہلے پنجاب کے تیرہ کروڑ عوام کو ’’وسیم اکرم پلس‘‘ دے دیا گیا۔ عثمان بزدار کی حکمرانی نے گورننس کو ایسے تماشے میں بدل دیا جس میں سب کچھ تھا، سوائے قیادت کے۔ یہ ایک ایسا تجربہ تھا جسے تاریخ شاید سیاسی اناڑی پن کی کلاسیکی مثال کے طور پر یاد رکھے۔ اگر بزدار کے دور کو کسی استعارے میں سمیٹا جائے تو کہا جا سکتا ہے: "چمکتے سورج کے نیچے جلتی ہوئی شمع” — روشنی تو تھی، مگر سمت کہیں نہیں۔
پھر خیبر پختونخوا کو محمود خان کے حوالے کر دیا گیا — ایک خاموش، غیر متحرک، بے دلی سے چلنے والی حکومت، جس میں فائلیں تو چلتی رہیں مگر ترقی رُک گئی۔ خاموش، بے عمل اور غیر فعال قیادت نے پانچ سال ایسے گزارے گویا ریاستی امور نہیں، ریڈیو کی خاموش موجیں سنبھال رکھی ہوں۔ اور جب عمران خان صاحب گرفتار ہوئے تو وہی محمود خان ’’میوٹ موڈ‘‘ سے مکمل غیاب میں نظر آئے۔
بار بار اناڑیوں کے ہاتھوں اقتدار کی باگ ڈالی جاتی ہے۔ عوام کے ووٹوں کو تجربہ گاہ بنایا گیا۔ پہلے وسیم اکرم پلس کی آزمائش کی، کارکردگی نہ دیکھائی تو فیصلے پر ڈٹے رہے۔ بزدار کی مثال سامنے ہے، آخر تک وسیم اکرم پلس ناکام ثابت ہوا۔ یہ ضد نہیں تو اور کیا ہے؟ کشمیر میں عبد القیوم نیازی کو وزیراعظم کی کرسی پر بٹھایا، چند ماہ بعد استعفیٰ لے لیا۔ پھر تنویر الیاس پر اعتماد کیا، اور مشکل وقت آیا تو وہ بھی ایسے غائب ہوئے جیسے لوہے کے چنے چبانے والے سیاستدان نہیں، ہوا میں تحلیل ہونے والا سایہ ہوں۔
ادھر بزدار صاحب ’’پلس‘‘ تو ثابت نہ ہو سکے، مگر 9 مئی کے بعد ایسے اوجھل ہوئے جیسے ’’گدھے کے سر سے سینگ‘‘۔ محمود خان صاحب نے بھی وزارتِ اعلیٰ کے دوران ’’میوٹ موڈ‘‘ کو شعار بنایا۔ آپ گرفتار ہوئے تو وہ بھی منظر سے یوں غائب ہوئے جیسے کبھی سیاسی منظرنامے پر تھے ہی نہیں۔
پھر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا ہے — نعرے بدل گئے، چہرے بدل گئے، مگر نتیجہ وہی صفر۔ علی امین گنڈاپور صاحب کو قیادت سونپی گئی۔ موصوف نے ڈیڑھ برس دھرنوں، جلوسوں اور مظاہروں کے شور میں گزار دیا۔ نہ کرسی رہی، نہ عوام کا کوئی فائدہ۔ جلسوں کی گونج میں ترقیاتی کاموں کی آواز گم ہو گئی۔ کروڑوں روپے جلسوں پر خرچ ہوئے مگر نہ صوبے میں ترقی دکھائی دی، نہ حکومت کا کوئی وژن۔
یوں لگا جیسے ہر شخص اپنی سیاست کی فلم میں مرکزی کردار بننا چاہتا ہے، اور عوام محض ایک بیکار تماشائی۔ سیاست کا شور، جوش تو بہت تھا، مگر حکمرانی کا علم کہیں سرنگوں پڑا تھا۔ یہ سب کچھ خان صاحب کے سامنے ہوتا رہا — اور وہ خاموش رہے۔ شاید اس لیے کہ ان کے نزدیک گورننس سے زیادہ ’’مزاحمت‘‘ اہم تھی۔
خان صاحب شاید بھول گئے کہ حکومت کے ستون نعرے نہیں، نظام ہوتا ہے۔ ریاست نظم سے چلتی ہے، غصے سے نہیں۔ یہ ملک جذبات کی بنیاد پر نہیں بلکہ توازن، تدبیر اور تجربے پر قائم رہ سکتا ہے۔ مگر خان صاحب نے ہمیشہ تجربہ کو پسِ پشت رکھا اور مخلصی کو معیار بنا دیا۔ انہوں نے ہمیشہ ’’مخلص‘‘ کو ’’ماہر‘‘ پر ترجیح دی۔ ان کے نزدیک شاید ریاست کا نظم چلانے کے لیے قابلیت نہیں بلکہ عقیدت کافی ہے۔
سہیل آفریدی کی نامزدگی اسی سوچ کی توسیع ہے — ایک مخلص ورکر ضرور، مگر نظامِ حکومت چلانے کے لیے صرف مخلصی کافی نہیں ہوتی۔ ریاست نیک نیتوں سے نہیں، قابل ہاتھوں سے سنبھلتی ہے۔ پندرہ برس سے خیبر پختونخوا تحریکِ انصاف کے زیرِ حکومت ہے۔ ایک زمانہ تھا جب عوام تبدیلی کے نعرے سے مسحور تھی، اب وہی نعرہ طنز بن چکا ہے۔
خان صاحب کے اقتدار نے عوام کے ووٹ کو بار بار سیاسی تجربے کی لیبارٹری میں ڈالا ہے۔ ہر ناکامی کے بعد ایک نیا چہرہ، ایک نیا وعدہ، اور ایک نئی مایوسی۔ گویا ’’نئے پاکستان‘‘ کی تعمیر کے نام پر پرانے پاکستان سے بھی زیادہ عدم استحکام پیدا کر دیا گیا۔ خان صاحب کو شاید القابات سے محبت ہے۔ پہلے وسیم اکرم پلس، پھر محمود خان، اور اب سہیل آفریدی — جنہیں انہوں نے ’’مخلص ورکر‘‘ کہہ کر خیبر پختونخوا کے عوام پر آزمائش کی صورت میں بھیج دیا۔
لیکن سوال یہ ہے: کیا مخلصی سے گورننس چلتی ہے؟ کیا عوام کے پیٹ روٹی سے نہیں بلکہ نعرے سے بھرے جا سکتے ہیں؟ کیا ریاستی نظام جذبات سے منظم ہوتا ہے یا ادارہ جاتی بصیرت سے؟ تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھ لیجیے — عوامی مقبولیت کے غرور میں جو بھی رہنما گورننس کو بھول بیٹھے، وہ تاریخ کے حاشیے پر دھکیل دیے گئے۔
بھٹو کے پاس عوامی طاقت تھی مگر ادارہ جاتی نظم قائم نہ کر سکے۔ نواز شریف کے پاس ووٹ تھے مگر ریاستی فہم نہیں۔ اور عمران خان کے پاس امیدوں کا ایک سمندر تھا، مگر اُس کے ساحل تک پہنچنے کے لیے نہ کشتی تھی نہ پتوار۔ یہی وہ لمحہ ہے جب عوام کا یقین متزلزل ہوتا ہے اور نعرے اپنی حرارت کھو دیتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ خان صاحب نے دو برس جیل میں رہ کر کیا سیکھا؟ زرداری صاحب کہا کرتے تھے کہ جیل ایک یونیورسٹی ہے — مگر شاید خان صاحب نے وہاں بھی نہیں سیکھا۔ وہی پرانی ضد، وہی انا، وہی ’’میرے سوا سب غلط‘‘ کا بیانیہ۔ یوں لگتا ہے جیسے ہر زخم نے انھیں نرم کرنے کے بجائے اور سخت کر دیا ہو۔
خان صاحب! یہ قوم اب نعرے نہیں، ریلیف چاہتی ہے۔ یہ وعدے نہیں، نظام چاہتی ہے۔ یہ قربانیوں کے نہیں، کارکردگی کے خواب دیکھنا چاہتی ہے۔ پندرہ برس سے خیبر پختونخوا آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر انقلاب نہیں تو کم از کم تعلیم و صحت میں اصلاح تو دکھائی دے۔ کیا یہ ظلم نہیں کہ ہر بار نیا چہرہ لا کر عوام سے تجربہ کیا جائے، اور جب ناکامی ہو تو سوشل میڈیا پر چند نعرے لگا کر سب بھلا دیا جائے؟ قوم کے وسائل، وقت اور امیدیں آخر کب تک ضائع کی جائیں گی؟
سیاست میں اصل انقلاب نعرے نہیں، نظم و ضبط، قانون، انصاف اور عوامی خدمت سے آتا ہے۔ آج بھی اگر کوئی لیڈر چاہے تو تاریخ کے دھارے کو موڑ سکتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ وہ خود کو بدلنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ سہیل آفریدی یقیناً پارٹی کے وفادار کارکن ہوں گے، مگر خیبر پختونخوا کے عوام اب ’’ورکروں‘‘ کے تجربے نہیں، کسی قابل منتظم، کسی وژن رکھنے والے سیاستدان کے منتظر ہیں۔
قومیں ان حکمرانوں کی بھلائی کی منتظر رہتی ہیں جو صرف مخلصی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اہلیت اور تجربے کی روشنی میں فیصلہ کرتے ہیں۔ ریاست مدینہ آپ کی رول ماڈل ہے — اس کے بانی نبی آخر الزمان، سببِ تخلیق کائنات، عظیم لیڈر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت میں عوامی فلاح، عدل و انصاف، عاجزی، درگزر، اور وسیع النظر سوچ نمایاں تھی، جو قیادت کے ہر پہلو میں نظر آتی تھی۔
مدینہ منورہ میں ریاست مدینہ کے قیام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نظام بنایا، وہ آج بھی قیادت اور گورننس کے لیے بے مثال نمونہ ہے۔ ریاست مدینہ میں ہر شہری کے حقوق کی حفاظت اولین ترجیح تھی، چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم۔ آپ نے یہ واضح کر دیا کہ طاقت اور اقتدار کا اصل مقصد عوام کی فلاح اور نظام کی مضبوطی ہے، نہ کہ ذاتی انا یا مفاد۔
فتح مکہ کا واقعہ قیادت کی بلند مثال ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مخالفین کو معاف کر دیا، انتقام نہیں لیا۔ یہ درگزر اور بلند ظرفی قیادت کے اعلیٰ معیار کی علامت ہے، جو نہ صرف دشمن بلکہ عوام کے دلوں میں احترام پیدا کرتی ہے۔
تاریخ ایسے کرداروں سے بھری پڑی ہے جن کے پاس عوام کی محبت تو تھی مگر بصیرت نہیں تھی۔ ان کے نعرے بلند تھے مگر فیصلے کھوکھلے۔ انہوں نے قوموں کو جوش دیا مگر نظم نہیں دیا۔ وقت نے پھر ان سب کو ماضی کی زینت بنا دیا اور آج وہ تاریخ کے حاشیے پر محض عبرت کا نشان ہیں۔
عمران خان صاحب کے ساتھ قوم کا تعلق بھی کبھی ایک خواب کی مانند تھا — ایک امید، ایک تصورِ نیا پاکستان۔ مگر وہ خواب رفتہ رفتہ تجربوں کی بھٹی میں جھونک دیا گیا جہاں عوام ہی ایندھن بن گئے۔ خان صاحب، یہ قوم اب نعروں سے نہیں، عمل سے متاثر ہوتی ہے۔ قربانیوں کے بیانات سے نہیں، نتائج مانگتی ہے۔
خیبر پختونخوا کی عوام اب تبدیلی نہیں، استحکام چاہتی ہے۔ پندرہ برسوں میں نہ تعلیم میں انقلاب آیا، نہ صحت میں اصلاح۔ ہر نئے وزیرِ اعلیٰ کے ساتھ ایک نیا تجربہ، ایک نیا وعدہ، اور پھر وہی پرانا انجام۔ کیا یہ ظلم نہیں کہ عوام کے وسائل، وقت اور امیدوں کو ہر بار سیاسی جوئے میں لگا دیا جائے؟
خان صاحب، وقت کا پہیہ رکتا نہیں۔ تاریخ ہر فیصلہ یاد رکھتی ہے۔ وہ مسیحاؤں کو بھی یاد رکھتی ہے اور ان کے فریبوں کو بھی۔ قومیں ان حکمرانوں کی بھلائی کی منتظر رہتی ہیں جو صرف مخلصی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اہلیت اور تجربے کی روشنی میں فیصلہ کرتے ہیں۔
تاریخ ہمیشہ ان لیڈروں کو یاد رکھتی ہے جنہوں نے اپنے اقتدار کو امانت سمجھا، نہ کہ تجربے کی کھلونا گاڑی۔ نیلسن منڈیلا نے 27 سال قید کے بعد بھی انتقام نہیں لیا بلکہ قوم کو متحد کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح چی گویرا نے کہا تھا کہ "انقلاب کا راستہ کبھی آسان نہیں ہوتا، مگر انصاف کی راہ میں ہر قربانی ضروری ہے۔” تاریخ کے یہ واقعات ہمیں سکھاتے ہیں کہ قیادت انا اور ذاتی مفاد سے نہیں بلکہ اصول، وژن اور عوامی خدمت سے پرکھی جاتی ہے۔
عمران خان صاحب کے پاس اب بھی وقت ہے۔ اگر وہ انا کے خول سے نکل آئیں، وقت آ گیا ہے کہ خان صاحب تجربوں کے خمار سے نکلیں اور تدبیر کی راہ اختیار کریں۔ ورنہ تاریخ لکھے گی کہ ایک لیڈر جس نے امید دی، آخر میں ’’انا‘‘ کے بوجھ تلے اپنے خوابوں کا جنازہ خود اٹھا لے گیا۔
سیاسی انا کا بھاری بوجھ
Comments are closed.