تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
حفیظ اللہ نیازی
مملکت کا بحران صرف سیاسی، چشم پوشی کیسے ممکن ہے؟ مملکت کو سیاسی دلدل میں دھکیلنے والے ذمہ داران ہمیشہ بچ نکلے بلکہ قومی اعزازات کیساتھ رخصت ہوئے، آزادی کے چند سال بعد ہی، مملکت ابھی سنبھل نہ پائی تھی کہ 1951ء کا بدقسمت سال ، سازشوں کا ایک لامتناہی سلسلہ چھوڑ گیا ۔
راولپنڈی سازش کیس ( فروری 1951ء) یا لیاقت علی خان کی شہادت ( اکتوبر 1951ء) ، دو ایسے گھاؤ کہ مملکت آج تک جانبر نہیں ہو پائی, 7جنوری کو جنرل ایوب خان کے آرمی چیف بنتے ہی، مضبوط بیوروکریسی نےطاقتور وں سے گٹھ جوڑ کرکے سازشوں کا جال بُن دیا، لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ریاست عملاً بیوروکریسی اور طاقتوروں کے کنٹرول میں آ گئی.
خواجہ ناظم الدین وزیرِ اعظم تو بنے مگر سازشوں کا جال پہلے سے موجود ، اوّل دن سے ناظم الدین حکومت کو کمزور کرنے کے حربے استعمال میں تھے، بالادستوں نے پہلا باقاعدہ شب خون اپریل 1953ء میں مارا، پارلیمان معطل کی اور خواجہ ناظم الدین برطرف کردیئے گئے ۔
غلام محمد ، جنرل ایوب اور جنرل اسکندر مرزا کی ٹرائیکا نے عملاً مملکت پر قبضہ جما لیا، جب یہ لاٹھی میری ہے تو بھینس کیوں تمہاری ہے ؟ جنرل ایوب پہلی واردات پر ہی بھانپ گئے کہ دراصل مملکت کا درخشاں مستقبل انکی ذات سے نتھی ہے.
جنرل ایوب نے دو ایسے رہنما اصول متعین کئے کہ آنیوالا کوئی بھی آرمی چیف ان سے چھٹکارا نہ پا سکا ، تاحیات آرمی چیف رہنا ہے، سیاسی حکومت و پارلیمان کو بہرحال تابع فرمان رکھنا، جنرل ایوب تا جنرل باجوہ شاذو نادر ہی کوئی آرمی چیف بنا جس نے ان دو رہنما اصولوں سے انحراف برتا ہو ۔
خواجہ ناظم الدین ( 1953ء) کی معزولی کے بعدٹرائیکا نے جب محمد علی بوگرا کو وزیرِاعظم بنایا تو پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھا، سیاسی جوڑ توڑ نے ملک کی چولیں ہلائے رکھیں، اسی کا تسلسل کہ وطن عزیز (دسمبر 1971ء) دولخت ہو گیا، استحکام کی غیرموجودگی میں بیسیوں قومیں ، درجنوں مملکتیں تحلیل ہوتے دیکھیں ، پاکستان کا مستقبل کیونکر مختلف رہتا، سانحہ مشرقی پاکستان ایسا جھٹکا کہ کاش ہم سبق سیکھتے ۔
سانحہ ہی کہ 1971 ءکے بعد سیاسی جوڑ توڑ کا اعمال نامہ پہلے سے زیادہ گھمبیر ، بلاتوقف ’’مشن عدم استحکام‘‘ جاری رکھا گیا ، برسبیل تذکرہ ، ایک اور سانحہ بھی، 16دسمبر 1971ء کے بعد بچی کھچی مملکت اگرچہ پھر سے سیاستدانوں کے رحم و کرم پر آن پڑی مگر جو اخلاص، دیانت اور صداقت بانیان پاکستان کا خاصہ تھی، بھٹو سیاست اس سے کوسوں دور تھی۔
مملکت کا مستقبل اکلوتے بھٹو صاحب کے رحم وکرم پر ،ہر طرح کا موقع اور محل موجود ، چاہتے تو سیاسی استحکام سے وطن عزیز کو مالا مال کر دیتے ۔ سول مقتدرہ تعلقات کے قضیے کو ہمیشہ کیلئے نمٹا سکتے تھے، بعینہ جیسے ترکیہ کے صدر طیب اردوان نے بغیر جھگڑے، لڑائی، غلط فہمی، آئینی تبدیلی (2003 ء) کے ذریعے 100سالہ سول ملٹری قضیہ نبٹا دیا، سیاسی استحکام نے سیاسی اقتصادی مستحکم ترکیہ کو 20 بڑے ترقی یافتہ ملکوں میں لاکھڑا کیا ہے ۔
بدقسمتی! بھٹو صاحب نے عدم استحکام کی کئی نئی جہتیں متعارف کروائیں ، مارشل لا سے حکومت شروع کی اور محنتِ شاقہ سے مارشل لا کے حوالے کرکے ہی رخصت ہوئے، 20 اکتوبر کو بحیثیت چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ملک سنبھالا تو چاہئے تھا کہ فوری آئین دیتے، مارشل لا ہٹاتے، 4ماہ تک مارشل لا کے ذریعے اپنا ذاتی ایجنڈے میں دلچسپی رہی، اپریل میں مارشل لا اُٹھایا بھی تو عبوری آئین کے ذریعے 16 ماہ مطلق العنان حاکم رہے۔
7ماہ بعد ( جولائی 1972ء) حفیظ الدین پیرزادہ کی سربراہی میں آئینی کمیٹی بنائی تو کارروائی میں غیرضروری طوالت رہی، اپریل 1973ء میں آئین بنا بھی تو 4ماہ نافذ نہ کیا، نافذہوا تو سال بعد ایسی یکطرفہ وجابرانہ آئینی ترامیم کیں کہ اس کے سامنے 26ویں آئینی ترمیم معصوم نظر آئے، بحیثیت مارشل لا ایڈمنسٹریٹر یا بحیثیت عبوری صدر یابحیثیت آئینی وزیراعظم اپنے مخالف اور اپنے حامی سیاستدانوں کو بلاتفریق جبر و استبداد سے ہانکا۔
پارلیمان اور عدالتوں کو زیرنگیں کرنے کا ہر ہتھکنڈا اپنایا ، جے اے رحیم ( اپنے ہی جنرل سیکرٹری PPP )، معراج محمد خان، مختیار رانا، افتخار تاری، مصطفیٰ کھر بے شمار اپنے ہی نامی گرامی ساتھی ہوں یا اپوزیشن رہنما میاں طفیل ، جاوید ہاشمی ، ولی خان ، بلوچ لیڈر ان پر بلاتخصیص و تفریق تشدد اور ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے.
بجائے اس کے کہ ریفارمز پر توجہ دیتے، جمہوری روایات کو مستحکم کرتے، موقع گنوا دیا، طاقت سے جب ریاست چلا لی تو پھر ’’جب یہ لاٹھی میری ہے تو بھینس کیوں تمہاری ہے‘‘۔
بالآخر دوبارہ سے بالادست طبقے نے حکومت سنبھال لی، سیاسی حکومتوں کی اُکھاڑ پچھاڑ کیلئے سیاسی انجینئرنگ کی بجائے سیاسی پروجیکٹ کو فوقیت دی گئی ، 50اور 60کی دہائی سیاسی انجینئرنگ کا زمانہ تھا ، 80کی دہائی ایک نیا زمانہ ، نئے اصول ، سیاسی پروجیکٹ نے رواج پایا۔
اگرچہ بھٹو صاحب نے ڈٹ کر جیل کاٹی ،’’ مفاہمت سے پرہیز‘‘پر پھانسی ملی ،افسوس ! حقی سچی وارث بینظیر بھٹو 1983ء میں انہی بالادستوں سے مفاہمت کرکے پہلے بیرون ملک گئیں ، پھر مفاہمت کرکے 10اپریل 1986ءکو واپس آئیں اور بالآخر جنہوں نے والد کو پھانسی دی تھی انہی سے مفاہمت کرکے وزیراعظم ( دسمبر 1988ء)بنیں.
مفاہمت ضرور کی مگر معافی نہ ملی، 20 ماہ بعد بے آبرو ہوکر اقتدار سے بیدخل ہوئیں، بینظیر کو نکالنے سے پہلے متبادل قیادت پروجیکٹ تیار تھا ، ’’ پروجیکٹ نواز شریف‘‘ روبہ عمل آیا ، 1990 میں اقتدار سونپا تو طاقتوروں کو فوراً احساس ہوا کہ شوق گُل بوسی میں کانٹوں پر زباں رکھ دی۔
اڑھائی سال بعد پتہ چلا کہ پروجیکٹ توقعات پر پورا نہیں اُترا ، 90کی دہائی میں بینظیر اور نواز شریف کو مجبوراً دو دو بار اقتدار دیا ہر بار چھین لیا کہ تالیفِ قلب کہیں نہ ملی ، 1999 میں ایک بار پھر پورا نظام لپیٹا اور ہمہ وقت نظم و نسق سنبھال لیا ، سیاست بحال ہوئی تو ساتھ ہی متبادل نئے پروجیکٹ پر کام شروع ہو گیا ، PPP اور PMLN کو ایک ایک باری ضرور ملی مگر تب تک نیا پروجیکٹ عمران خان لانچنگ کیلئے تیار تھا ۔
پروجیکٹ عمران خان کامیابی سے ہمکنار تو ہوا، پالیا پالیا کا شور و غوغا بھی مچا مگر وائے ناکامی کہ آج گلے پڑ چکا ہے ۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
(بشکریہ روزنامہ جنگ)
Comments are closed.