آزاد کشمیر میں حالیہ پرتشدد احتجاج ، اموات ، مطالبات ،راستوں کی بندشیں ، ریاست کی طرف سے طاقت کا استعمال،مظاہرین کی جانب سے پولیس پر حملے اورمتنازعہ نعرہ بازی ۔۔
سب اب ماضی کا حصہ بن چکاہے ، بعض شرپسندوں کی جانب سے پاکستان اور افواج کے خلاف نعرہ بازی نے پاکستان میں بھی لوگوں میں اشتعال پیدا کیا تاہم جب 10 وفاقی وزرا نے نے جا کر متحدہ ایکشن کمیٹی سے کامیاب مزاکرات کئے اور ان کے مطالبات مان لئے تو پھرعملاً یہ بحث ختم ہوگئی۔
ہم نے دیکھا وہی لوگ جو تین دن قبل مشتعل ہو کر جارحانہ زبان استعمال کررہے تھے مطالبات پورے ہونے کے بعد کوہالہ کے قریب ایک بڑے اجتماع میں یہ فلک شگاف نعرے بھی لگا رہے تھے کہ ، ہم ہیں پاکستانی پاکستان ہمارا ہے۔
اس احتجاج کے دوران جوں جوں سوشل میڈیا پر متنازعہ نعرہ بازی الفاظی پر پاکستان میں عوام اور بعض صحافیوں کی جانب سے ردعمل سامنے آیااس پر ایکشن کمیٹی کے رہنماوں کی طرف سے یہ وضاحتیں بھی سامنے آئیں کہ یہ احتجاج پاکستان یا سکیورٹی فورسز کے خلاف نہیں ہمارے اپنے حقوق کےلئے اپنی حکومت کے خلاف ہے۔
متذکرہ بالاساری صورتحال کو دیکھتے ہیں ہمیں یہ سمجھنے میں مشکل نہیں ہونا چایئے کہ جب کوئی احتجاج کےلئے نکلتا ہے تو جہاں جہاں اسے مشکل پیش آتی ہے وہ اس کے خلاف بھی بولتاہے۔
اسلام آباد پولیس کے خلاف مظاہرین کے سلوک کی حمایت نہیں کی جاسکتی ، لیکن یہ بات بھی سمجھنے والی ہے کہ جب آزاد کشمیر کی اپنی پولیس موجود ہے تو پھر اس فورس کو وہاں بھیجنے کی کیا ضرورت ہےجو صرف اسلام آباد کےلئے ہے۔
اس کے فالو اپ میں اسلام آباد پولیس نے نیشنل پریس کلب کے سامنے مظاہرین پر تشدد کرکے بدلہ لینے کی کوشش کی ، جب کہ اس دوران ایک اور ناخوشگوار تاریخ رقم کی جب اسلام آباد پولیس کے اہلکار نیشنل پریس کلب میں داخل ہوگئے اور صحافیوں پر بھی تشدد کی، سٹاف کو بھی مارا پیٹا۔
گویا ان کوغصہ آزاد کشمیر میں ساتھیوں کے ساتھ سلوک پر تھا اور جواب یہاں دیا گیا۔۔
اگر متعلقہ افسران دانشمندانہ رویہ اپناتے تو نیشنل پریس کلب پرپولیس کاحملہ نہ ہوتا، اگر آپ نے بھی وہی راستہ اپنانا ہے اور قانون ہاتھ میں لینا ہے تو پھر پولیس اور آزاد کشمیر کے مظاہرین میں فرق کیا رہ جاتاہے۔
انھوں نے بھی قانون ہاتھ میں لیا اور آپ نے بھی ویسا ہی کیا، دوسرا قانون کے مطابق پولیس کسی کو جرم پر گرفتار کرسکتی ہے اس پر تشدد نہیں کرسکتی، کوئی اگرجرم کا مرتکب ہوا ہے تو اس کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہوتاہے۔
وطن عزیز میں پولیس کو سیاسی انتقام کےلئے استعمال کرنے کی روایت نے پولیس کا یہ کھلی چھوٹ دے دی ہے کہ وہ خود قانون ہاتھ میں لے لیتے ہیں، یہ رویہ کسی مہذب ریاست میں کسی بھی طور حوصلہ افزا نہیں ہے اور یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو پھر کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا، جوآج اقتدار میں ہیں کل اسی رویہ کا سامنا بھی کریں گے۔
Comments are closed.