فوج کے اندر کسی نئے عہدے کی تخلیق یا کسی عہدے کی تبدیلی حکومت کا اختیار ہے، ترجمان پاک فوج
فوٹو : اسکرین گریب
راولپنڈی : ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے واضح کیا کہ پاکستان کی سیکیورٹی کی واحد ضمانت اس کی مسلح افواج ہیں اور یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی۔
سینئر صحافیوں کو دی گئی بریفنگ میں اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں حکمران طالبان ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کے سروں کے فٹبال بنا کر کھیلنے والے عناصر کو روکتے نظر نہیں آ رہے، اور اس پس منظر میں کابل کو کوئی سیکیورٹی ضمانت دینے کی بات مضحکہ خیز ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان کی سکیورٹی کے خلاف سرگرمیاں کرنے والی قوتوں—جن میں ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر انتہاپسند تنظیمیں شامل ہیں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھی جائیں گی۔
ان کے خلاف مؤثر آپریشنز ہماری اولین ترجیح ہیں۔ اُنہوں نے زور دے کر کہا کہ معرکہ حق میں حکومت، کابینہ، فوج اور سیاسی جماعتوں نے مشترکہ فیصلے کیے اور اس تسلسل کو برقرار رکھا جائے گا۔
خیبرپختونخوا حکومت کی مزاکرات کی تجویز پر اعتراض
اُنہوں نے خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے دہشت گردوں سے مذاکرات کی بات پر سخت اعتراض ظاہر کیا اور کہا کہ صوبائی سطح پر دہشت گردوں کے ساتھ بات چیت کی پالیسی سے ملک میں کنفیوژن پھیلتا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ طالبان ایسے لوگ ہیں جو ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کے سروں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرتے ہیں ، ایسے عناصر کے ساتھ مذاکرات کا تصور کیسے کیا جا سکتا ہے؟ انہوں نے واضح انداز میں کہا کہ امن و امان کی صورتحال میں پیش آنے والی کسی بھی ناکامی یا ابہام کی گونج عوام تک پہنچتی ہے اور اس کے سنگین نتائج ہوتے ہیں۔
ڈرونز کے حوالے امریکہ کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر
ترجمان پاک فوج نے ڈرون آپریشنز کے حوالے سے بھی موقف واضح کیا کہ پاکستان کا امریکہ کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ موجود نہیں جس کے تحت امریکی ڈرونز پاکستان سے افغانستان جائیں۔
ترجمان کے مطابق طالبان رجیم کی جانب سے ڈرون کے حوالے سے کوئی باقاعدہ شکایت موصول نہیں ہوئی اور وزارت اطلاعات نے کئی مرتبہ اس موضوع پر وضاحت بھی پیش کی ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس ایسی کوئی معاہدہ شدہ ذمہ داری نہیں ہے کہ ڈرون پاکستان کی فضائی حدود سے افغانستان تک پرواز کریں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے استنبول میں طالبان کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر پاکستان کے موقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہاں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے۔
دہشتگردی کرکے افغانستان جانے والوں کو ہمارے حوالے کیا جائے، ترجمان پاک فوج
اگر وہاں موجود دہشت گرد ہمارے ملک کے خلاف سرگرم ہیں تو اُنہیں واپس بھیجا جائے اور پاکستان آئین اور قانون کے مطابق اُن کے خلاف کارروائی کرے گا۔ جن عناصر نے ہمارے ملک میں دہشت گردی کی اور آپریشن کے دوران فرار ہو کر افغانستان چلے گئے تھے، اُنھیں ہمارے حوالے کیا جائے تاکہ قانون کے مطابق نمٹا جا سکے۔
اُنھوں نے ایک سنگین مسئلے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بتایا کہ دہشت گردی، منشیات کی کاشت اور اسمگلنگ کا باہم گٹھ جوڑ ہے۔ خاص طور پر افیون کی کھیتی سے وابستہ افراد فی ایکڑ 18 سے 25 لاکھ روپے تک کماتے ہیں، اور اسی دولت کے باعث مقامی آبادی، وار لارڈز اور مختلف گروہ مل کر اس منافع میں شریک ہو جاتے ہیں۔
اس طرح کی غیر قانونی معیشت دہشت گردی کے مالی ذرائع کو تقویت دیتی ہے اور علاقائی و بین الاقوامی سطح پر خطرات پیدا کرتی ہے۔
فوج سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہتی اسے سیاست سے دور رکھا جائے، احمدشریف چوہدری
ڈی جی آئی ایس پی آر نے فوج کے داخلی انتظامات کے بارے میں کہا کہ فوج کے اندر کسی نئے عہدے کی تخلیق یا کسی عہدے کی تبدیلی حکومت کا اختیار ہے، ترجمان پاک فوج نے کہا فوج کا یہ اختیار نہیں۔ اُن کے بقول فوج سیاست میں ملوث ہونا نہیں چاہتی اور اسے سیاست سے دور رکھا جانا چاہیے۔
اگر کوئی ادارہ فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کرے تو یہ اس کی حکمتِ عملی سمجھی جائے گی۔ وہ بار بار یہ بات دہرائے کہ سیاست دان ریاست بناتے ہیں اور اداروں کو ریاست کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔
ترجمان نے واضح کیا کہ اگر وادی میں یا کسی علاقے میں فوج نے آپریشن کیا تو وہ خود بتائیں گے، تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کے دوران تقریباً 200 کے قریب ہمارے جوان اور افسروں نے شہادت کا اعزاز پایا۔
ساتھ ہی اُس دوران دہشت گردانہ حملوں میں 206 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔ فوجی کارروائیوں اور جھڑپوں میں 206 افغان طالبان اور 100 سے زائد فتنۃ الخوارج کے دہشت گرد مارے گئے، جبکہ فتنۃ الخوارج کے خلاف آپریشنز میں 1667 دہشت گرد ہلاک ہوئے ، مجموعی طور پر 2025 کے دوران ملک بھر میں 62 ہزار سے زائد آپریشنز انجام دئیے گئے۔
گورنرشپ یا حکومت چلانے کا معاملہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے
ایک اور سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ گورنرشپ یا حکومت چلانے کا معاملہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے اور جو لوگ مساجد و مدارس کو نشانہ بناتے ہیں، اُن کے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں۔
استنبول کانفرنس کے حوالے سے اُنہوں نے کہا کہ پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے: دہشت گردی کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں، کسی بھی طرح کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی اور افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
جب پوچھا گیا کہ کیا پاکستان غزہ میں فوج بھیجے گا تو ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح طور پر کہا کہ یہ فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کا معاملہ ہے، فوج اس معاملے میں خود فیصلے نہیں کرتی۔
اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کو اخلاقیات سکھانے کی ضرورت نہیں، اور نہ ہی وہ کسی کے آگے ہاتھ جوڑ کر منت سماجت کرنے پر آمادہ ہیں — ہم اپنے مسلح افواج اور عوام کی حفاظت کو بخوبی جانتے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے سرحدی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے ساتھ ہماری سرحد 2600 کلومیٹر طویل ہے اور اس میں پہاڑ اور دریائے راستے بھی شامل ہیں؛ سرحد پر ہر جگہ چوکی قائم کرنا ممکن نہیں، عام طور پر ہر 25 سے 40 کلومیٹر پر ایک چوکی بنتی ہے۔
سرحد پر فائرنگ کے جواب میں ہماری فوج دفاعی ردعمل دیتی ہے
اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے دشمن ہمیں تنہا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ دنیا بھر میں سرحدی گارڈز دونوں اطراف موجود ہوتے ہیں، لیکن یہاں ہمیں اکیلے چھوڑا جاتا ہے۔
افغان سرحدی گارڈز بعض اوقات دہشت گردوں کو سرحد پار کرانے کے لیے ہماری افواج پر فائرنگ بھی کرتے ہیں، اور جب ہماری افواج جواب دیتی ہیں تو یہ دفاعی ردِعمل ہوتا ہے۔
اُنہوں نے افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گردی کا مرکز قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہاں ہر قسم کی دہشت گرد تنظیم موجود ہے اور وہ دہشت گردی کو جنم دے رہا ہے جسے پڑوسی ممالک میں پھیلایا جا رہا ہے۔
پہلگام واقعے کے سلسلے میں انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے شواہد بھارت سے مانگے گئے مگر فراہم نہیں کیے گئے۔
ستائیسویں آئینی ترمیم کرنا پارلیمنٹ کا معاملہ ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر
ڈی جی آئی ایس پی آر نے دوبارہ اس بات پر زور دیا کہ 27 ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ کا معاملہ ہے اور فوج سیاست میں ملوث ہونا نہیں چاہتی۔ اگر فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے تو وہ اپنے آئینی فرائض پر توجہ دے سکتی ہے — "ہم سیاست کرنا نہیں چاہتے، اگر گھسیٹنا ہے تو یہ ان کی اسٹریٹجی ہے”۔
اُنہوں نے کہا کہ دوحہ معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہو رہا اور بھارت نے جو بھی کچھ کرنا چاہے، اس بار پاکستان کا جواب انتہائی سخت ہوگا۔ اُن کے مطابق بھارت نے پہلے حملہ کیا اور پھر پاکستان نے جواب دیا؛ اگر بھارت نے دوبارہ حرکت کی تو اس کا ردعمل شدید ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بھارت سمندر میں اور فالس فلیگ آپریشنز کی تیاری کر رہا ہے مگر پاکستان پوری طرح چوکس ہے — دہشت گرد حملے کی صورت میں پاکستان کو جواب دینے کا پورا حق حاصل ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ کارروائیوں میں مارے جانے والے افراد عام شہری نہیں بلکہ دہشت گردوں کے سہولت کار ہوتے ہیں۔
			
Comments are closed.