27ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ ڈرافٹ تیار، وفاقی حکومت کی آئین کے 5 آرٹیکلز میں ترامیم کی تجویز
فوٹو : فائل
اسلام آباد :وفاقی حکومت کی جانب سے 27ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ ڈرافٹ کے اہم نکات سامنے آ گئے ہیں، جس میں آئین کے پانچ مختلف آرٹیکلز میں بنیادی نوعیت کی ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔
ذرائع کے مطابق حکومت اس ترمیم کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 160، شق 3 اے، آرٹیکل 213، آرٹیکل 243 اور آرٹیکل 191 اے میں تبدیلیاں لانے کی خواہش مند ہے، تاکہ ملکی نظام میں وفاقی اختیارات کو ازسرِنو متعین کیا جا سکے۔
مجوزہ ترمیم کے مطابق آرٹیکل 160 کی شق 3A میں ایک بڑی تبدیلی تجویز کی گئی ہے، جس کے تحت صوبوں کے وفاقی محصولات میں حصے کی آئینی ضمانت ختم کرنے کی تجویز شامل ہے۔
اس ترمیم کے بعد صوبوں کو قومی مالیاتی کمیشن (NFC) ایوارڈ کے ذریعے حاصل موجودہ آئینی تحفظ محدود ہو جائے گا، جس سے مالیاتی اختیارات کے توازن میں نمایاں تبدیلی متوقع ہے۔
ذرائع کے مطابق مجوزہ ڈرافٹ میں عدالتی ڈھانچے میں بھی بڑی تبدیلیوں کی تجاویز شامل ہیں۔ اس کے تحت آرٹیکل 191A میں ترمیم اور ایک نیا آئینی آرٹیکل شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ مجوزہ ترامیم کے تحت ملک میں ایک نئی آئینی عدالت یا سپریم آئینی عدالت قائم کرنے کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔
یہ عدالت آئین کی تشریحات کے حوالے سے حتمی اختیار رکھے گی، جس سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے دائرۂ کار میں تبدیلی کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق آئینی تشریحات کے حتمی اختیار میں تبدیلی کی تجویز بھی اسی ترمیم کا حصہ ہے، جس کا مقصد آئینی معاملات پر فیصلوں کو ایک مخصوص عدالتی فورم تک محدود کرنا بتایا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ ہائی کورٹ کے ججز کی منتقلی سے متعلق آرٹیکل 200 میں بھی ترامیم تجویز کی گئی ہیں تاکہ عدالتی انتظامی ڈھانچے کو وفاقی سطح پر مزید مربوط بنایا جا سکے۔
مزید برآں، تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کے شعبوں کو دوبارہ وفاق کے ماتحت لانے کی تجویز بھی مجوزہ ترامیم میں شامل کی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق 18ویں آئینی ترمیم کے بعد یہ شعبے صوبوں کو منتقل کر دیے گئے تھے، تاہم اب ان کا کنٹرول واپس وفاق کو دینے کی تجویز زیر غور ہے تاکہ پالیسیوں میں یکسانیت لائی جا سکے۔
آرٹیکل 243 میں ترمیم کے تحت مسلح افواج کی کمان مکمل طور پر وفاقی حکومت کے ماتحت رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔
مجوزہ تبدیلی کے مطابق فوج کے معاملات پر حتمی فیصلہ سازی کا اختیار براہ راست وفاقی حکومت کے پاس ہو گا، تاکہ عسکری نظم و نسق میں کسی قسم کی ابہام یا تقسیم نہ رہے۔
اسی طرح آرٹیکل 213 میں ترمیم کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی کی تجویز دی گئی ہے۔
اس نئے نظام کے تحت چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی میں وفاقی حکومت کے کردار کو مزید مضبوط کیا جا سکتا ہے، جبکہ اپوزیشن کی مشاورت کے طریقہ کار میں ممکنہ تبدیلی زیر غور ہے۔
ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے 27ویں آئینی ترامیم کا مجوزہ مسودہ پیپلزپارٹی کی قیادت کے حوالے کر دیا ہے اور اس سے ترمیمی بل کی منظوری کے لیے باقاعدہ سیاسی حمایت طلب کی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ پارلیمنٹ میں اس ترمیم کو جلد پیش کر کے قانونی شکل دی جائے تاکہ ریاستی ڈھانچے میں مجوزہ تبدیلیاں عملی طور پر نافذ ہو سکیں۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ مجوزہ ترامیم کے بعد آئینی اداروں کے اختیارات، وفاق اور صوبوں کے درمیان مالی تعلقات، اور عدالتی تشریحات کے نظام میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوں گی، جو مستقبل میں ملکی سیاست، عدلیہ اور گورننس پر گہرے اثرات ڈال سکتی ہیں۔
27ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ ڈرافٹ تیار، وفاقی حکومت کی آئین کے 5 آرٹیکلز میں ترامیم کی تجویز
			
Comments are closed.