دھوپ اور ریت کی رفاقت میں

49 / 100

خالد مجید

سیاسی رضیہ تو نہ جانے کس کس کے نرغے میں پھنسی ھوئی ہے جبکہ بچاری عالیہ اور عظمی کا بھی حال کوئی اچھا نہیں ہے اوپر سے ان تینوں کے رون سیاپے ختم ھونے کا نام ھی نہیں لیتے وقت کا بہتادھارا دنوں پر دنوں کی تہہ لگاۓ آگے بڑھتا جا رھا ھیے اور اس سفر کی دھول میں آٹے کی مہنگائی کا غبار بھی کسی کو صاف دکھائی نہیں دے رھا اور نہ ھی غریب کے غریب تر ھونےکا واویلا کسی کو سنائی دے رھا لمحہ موجود کا مورخ لاھور کے زمان پارک میں قانون کے اندھے ھونے اور کور چشموں کی تاریخ لکھنے پر کار بند ھیے

الیکشن 2018 کے بعد سے سیاسی ،قانونی اور اخلاقی خطاؤں کا انبار ندامت کے بجائے ڈھٹائی کے فخر سے سینہ پھلاۓ قانون کو منہ چڑھا رھا ھے.

لیکن آج کا مورخ اپنی سفارک سوچ اور کھلی آنکھ سے ایوانوں کی ، عدالتوں کی اور سڑکوں کی بے رحمیاں دیکھ رھا ھیے احساس و محسوسات کی تمام حسیں بیدار ہیں مگر سر تھامے بیٹھا ھیے کہ کس سچ کو چھپائے اور کس کو آشکار کرۓ کہ ھر سطر کے بعد ندامت ھی تو کھڑی ھیے لیکن وہ لکھے گا ضرور اور پھر ” لاپتہ کا پتہ ” تلاش کیا جائے گا کہ قاہد اعظم کو خراب ایمبولینس کس نے بھجوائی تھی؟

لیاقت علی خان کو لگنے والی گولی کس نے بھجوائی تھی ، ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف سازش کہاں کس نے بنائی تھی ، ضیا الحق کا جہاز میں آم کی پیٹی کس نے رکھوائی تھی ، بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث دستانوں میں چھپے ھاتھ کون سے تھے اور پھر عشروں بعد من مندر میں پناہ گزین ” لاپتہ کا پتہ ” مل جاتا ھیے؟
پھر وضاحتوں اور شکایتوں کے پلندے کھل جاتے ہیں اور پھر کبھی کبھی تمام باتیں رد ھو جاتی ہیں ۔۔۔۔

ھم نے جو ” لاپتہ کا پتہ "عنوان رکھا ھیے وہ اپنے جنم بھومی گجرات کی منفرد لب ولہجہ رکھنے والی شاعرہ شاہین مفتی کی کتاب سے لیا ھیے ۔ نظم میں ان جیسی جدت شاعرات میں خال خال ھی نظر آتی ھیے ان کا جنم بھومی تو سرگودھا ھیے مگر ان کے نام کے ساتھ گجرات ایک مضبوط حوالہ اسی طرح ھیے جیسے جلال پور جٹاں کا گرلز کالج !!

جب ھر طرف سیاسی ، عدالتی ،اخلاقی خود غرضی کا رمبا ناچ شروع ھو تو کتاب میں پناہ لے لینی چاہئے کہ ایسے لمحوں میں بے ضرر سہارے کی ضرورت ھوتی ھیے اور کتاب سے بڑھ کر بے ضرر دوست اور بے غرض سہارا کوئی نہیں ھوتا

اور ھم نے” لاپتہ کا پتہ ” ایک ھی نشست میں پڑھ لی ، دوسری دفعہ دو دن کے وقفے سے کتاب پڑھی تو خیال نے زہین پر دستک دی اور دل نے تاہید کر دی کہ شاہین مفتی کی شاعری پڑھنے کے ھیے ھی نہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ پڑھنے کی شاعری نہیں ھیے ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ یہ شاعری تو احساس کے لفظوں سے گندھی ھوئی احساسات کی ترجمان شاعری ھیے یہ محسوسات کی شاعری ھیے اس شاعری کو محسوس کیا جاتا ھیے۔ تو اس بار احساس اور محسوس کے ہمراہ دل و دماغ کی سب در وا کر لیے تو شاعری کا مزہ آگیا ۔

شاہین مفتی کے پاس لکھنے کا حوصلہ اور ہنر دونوں موجود ہے وہ گنجلک سے پاک اور رواں دواں لفظوں کو اشعار کا روپ یوں دیتی ہیں جیسے ندی کا پانی ذہنوں میں اپنا اثر چھوڑ کر آگے بڑھتا چلا جاتا ھے وہ کہتی ہیں

کبھی کبھی تو اداسی نے یہ کمال کیا
وہ مجھ سے پہلے مرے گھر میں آ کے بیٹھ گئی
۔۔۔۔۔۔
اتنے پامال ہوئے دورِ ہزیمت میں کہ بس
یہ بھی اب یاد نہیں وجہء ہزیمت کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمام عمر اسی کے جواب میں گزری
وہ اک سوال جو مبہم بھی مختصر بھی
۔۔۔۔۔۔
اور پھر سامنے مرشد نامہ آ گیا تو بار بار پڑھا اور جیسے وقت کی نبض پر ھاتھ رکھے شاہین مفتی کہہ رھی ھوں

مرشدوفا کا لفظ ہی بدنام ہو گیا
مرشد منافقت کا چلن عام ہو گیا

مرشد شبِ ملال گزرتی نہیں ہے کیوں
مرشد ہمارے حصے کا سورج کدھر گیا

مرشد ہماری رات کی صبح کہیں نہ تھی
چشمِ فلک کا آخری سورج بھی ڈھل گیا

دستِ سوال بن کے پڑے ہیں اسی جگہ
ہم تو سمجھ رہے تھے برا وقت ٹل گیا
۔۔۔۔۔
شاہین مفتی کی شاعری میں صرف مزاحمت نہیں اس میں رومانویت کا اثر بھی نہایت خوبصورتی سےموجود ہیے

چار سو ایک ہی تصویر نظر آنے لگی
اب کسی آئنہ خانے کی ضرورت کیا ہے

بے گھری آپ کے دروازے پر آ پہنچی ہے
آپ دیوار کے اس پار سلامت رہیے

دلوں کو ہم نے مسخر کیا ہے لفظوں سے
ہمارے ہاتھ میں تیغ و کٹار تھوڑی ہے

پھر محبت کے لطیف جذبات کی شاعری دلوں کو گدگداتی ہے جدید حساسیت اور لمحہ موجود کے تقاضوں سے مالامال شاعری پوری آب و تاب کے ساتھ شعری افق پر دمکتی نظر آتی ہے

آج اس شہر سے گزرے تو خیال آیا ہے
کوئی رہتا تھا یہیں کوچہ غفلت کی طرف

ریت نے پاؤں پکڑ کر یہ مسافر سے کہا
اک نظر دیکھ تو لے نیت دریا کیا ہے

جنہیں اگایا گیا برگدوں کی چھاؤں میں
بھلا وہ پیڑ چمن میں بڑے ہوۓ ہیں کہیں

شاہین کا مجموعہ”لاپتہ کا پتہ “ جس کی پہلی نظم”مکتب محبت میں” پڑھنے کے ساتھ ہی انکی سوچ اور فکر انسان پر کھل جاتی اور کتاب کے باقی اوراق پر لکھی شاعری پڑھنے کو نہ صرف جی للچاتا ہے بلکہ انکے لہجے کی مٹھاس پڑھنے والے پر اک سرور طاری کر دیتی ھیے ،ھر نظم اور شعر کا ھر مصرع انکی شخصیت اور مزاحمت کی دلیل دیتا ہے ۔۔۔ یہاں انکی نظم لاپتہ کا پتہ کا پہلا بند تحریر کرنا بہت ضروری ہے

یہ کس نے اپنے ہی گھر میں نقب لگائی ہے
یہ کون اپنا ہی ساماں چرانے آیا ہے
نہ دن کا ذکر نہ راتوں کا تذکرہ یہاں
یہاں تو وقت قیامت کی چال چلتا ہے
ہمیں ہیں شہر ستم کے وہ چند ہجر نصیب
کہ جن کو لوٹا گیا ان کے گھر کی چوکھٹ پر

ان کی نظم “تماشا اور تماشائی “کا ایک خیال زرا پڑھیے
تماشاگر کی قسمت کیا؟بس اک تالی یا پھر گالی

جس نظم کو پڑھیں اپنے معنوی اعتبار سے اپنے ھونے کا بھرپور احساس دلاتی ھیےب ،منظر نامہ،ہجرت سے پہلے، اے کربلا کی خاک،چوک میں، پہاڑ پراور “رفتگاں کیلیے” کیا کمال نظمیں ہیں کہ لفظوں کی مالا اپنے اپنے مقام پر ھونے کا بھرپور اعلان کرتی نظر آتی ہیں لیکن مرشد نامہ تو جہاں سماج کا نوحہ ہے وھاں طمانچہ بھی ھے نجانے کس کس کا چہرہ شفاف اور کتنے دھندلے چہرے اس مرشد نامے کے بوجھ تلے کرلاتے نظر آ رھے ہیں زرا یہ پڑھیں ۔

مرشد ہمارے کھیت مکانوں میں ڈھل گئے
مرشد ہماری ذات کی معنی بدل

مرشد ہماری عمر اذیت میں کٹ گئی
مرشد ہمارے نام کی ہر چیز بٹ گئی

مرشد ہمیں خدا سے ڈرایا گیا بہت
مرشد ہمارا خون بہایا گیا بہت

مرشد کتاب عشق اوراق پھٹ گے
ہم رفتہ رفتہ اپنے قبیلے سے کٹ گئے

شاہین مفتی کی غزلیں بھی اپنی مثال آپ ہیں زبان کی چاشنی اور تغزل کی نغمگی اور اس میں وہ سرشاری جیسے رواں ندی کا پرسکوں پانی ، لیکن زندگی کی امیں یوں جیسے نخلستان میں بھٹکے مسافر کے لیے آسمان پر ابھری بدلی ، وہ لکھتی ہیں

وہ بھی کیا لوگ تھے جو شہر کے چو رستے پر
واجب القتل ہوۓ اپنی وفاؤں کے طفیل
۔۔۔
خالی آنگن میں گونجتی ہے ہنسی
لڑکیاں جا بسیں نگر اپنے
تتلیاں پھول کے بھروسے پر
چھوڑ کر اڑ گئیں ہیں پر اپنے
۔۔۔۔
دھوپ اور ریت کی رفاقت میں
ایک سورج مرا گواہ ہوا

دیکھتے دیکھتے ہی رنگ
فلک
کاسنی، سرمئی ، سیاہ ہوا
۔۔۔۔۔۔۔
جیسے جیسے بڑھی بے نیازی تری
اپنے شکوے گلے مختصر ہو گئے

بے وفائی کی تاریخ لکھی گئی
جتنے غدار تھے وہ امر ھو گے
۔۔۔۔۔۔
شاہین مفتی کی شاعری میں ان کے شاعرانہ لہجے کو ایک خاص مقام حاصل ھیے ان کا انداز بیانیہ ھیے جو دلوں کو خوب بھاتا ہے اس پر ان کے لہجے کی بے ساختگی میں جہاں ضبط ، متانت ،وقار نظر آتا ھیے وہیں انا پرستی بھی ان کے لہجے کا ذریعہ اظہار بنتی ہے جب انسان اپنی ذات پر ہر ذائقہ کو سہنے کے بعد اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہو جائے تو آنکھوں سے ٹپکتے موتی، یاد کی الجھی گھتیاں سلجھاتے، زندگی کی تلخیاں اور سچائیاں جب شعروں کا روپ دھار کر صفحہ قرطاس پر سجتے ہیں تو قلم سے ایسے ہی اشعار نکلتے ہیں

کس نے یہ ایک پھول اچھالا میری طرف
بڑھنے لگا عدو کا رسالہ ہے میری طرف
۔۔۔۔۔۔
یہ دور مے ہے یا ہے کوئی دور تشنگی
آنکھیں کہیں ہیں اور پیالہ میری طرف
۔۔۔۔۔۔
گزر گیا وہ قیامت کی چال چلتے ہوئے
جو منتظر تھے وہیں پر کھڑے ہوئے ہیں کہیں
۔۔۔۔۔۔۔
آج اس شہر سے گزرے تو خیال آیا ہے
کوئی رہتا تھا یہیں کوچہ غفلت کی طرف
۔۔۔۔۔۔۔
ہم تو ہر بار صدا دے کے پلٹ جائیں گے
تا قیامت یوں ہی محروم سماعت رہیے
۔۔۔۔
خیر ہو پھول جیسے لوگوں کی
زخم دیتے ہیں جو نشانی میں

ہم نہیں ڈھونڈتے کبھی صاحب
نقش اول کو نقش ثانی میں
۔۔۔۔۔۔
لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے حالات کی تابکاریاں اپنے من مندر میں سچائی کی آنچ پر پکانا پڑتی ہیں ،دماغ سوزی کے بعد بہت سے در کھلتے ہیں پھر سریر کے اندر ماضی اور حال کی یادیں تلاطم خیزیاں پیدا کرتی ہیں پھر ماضی خواب بن کر یادوں کے دالان میں عقل کی کھڑکی کھولتا ہے تو روشنی کے مجسمے اندر داخل ہوتے ہیں پھر کن پٹیاں سلگنے لگتی ہیں ، دماغ میں گھنٹیاں بجتی ہیں اور بے شمار الفاظ ذہن کے اندر نمودار ہوتے ہیں اور بے ہنگم اچھل کود شروع کر دیتے ہیں ہیں پھر سوچ ، دکھ ،درد ،خوشی ،یاد ، اضطراب ،خلش ،خواہش ، جدائی ، بے وفائی کی ٹیسوں کو لکھنے لگتا ھیے تو شاہین مفتی کے حضور الفاظ قطار در قطار جمع ھو کر اشعار میں ڈھلنے کے لیے بےقرار اور ملتمس نظر آتے ہیں

شاعری کے اپنے ہی رنگ ہیں اپنے اپنے رنگ میں اپنے دکھ کو اپنی محبت کو اپنے احساس کو اپنی انا کو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انا کی تسکین کے لیے اپنی خودی اور خودداری کے لئے لفظوں کے موتی پروتے ہیں تو وہ اپنے ہونے کا مکمل احساس دلاتے ہیں

شاہین مفتی لفظوں کی مالا کو لطیف جذبوں کا روپ دے کر شعر کہتی ہیں اسی لیے تو دل پر اثر کر جاتے ہیں

اس سے پہلے بھی ان کی کتابیں شائع ہوکر پسندیدگی کی سند حاصل کر چکی ہیں انہوں نے تراجم بھی کیے ہیں ، انہوں نے نثر بھی لکھی ہے ان کا شعری مجموعہ بھی شائع ھوا ھیے یہ تو میری کم علمی ہے کہ میں ان کی لذت آفرین تحریروں سے محروم رہا ہوں کاش ایسا نہ ھوتا !

دھوپ اور ریت کی رفاقت میں

khalidmajeed925@gmail.com

Comments are closed.