عام عورت اورخواتین مارچ

54 / 100
سدرہ عاقب

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی گزشتہ کئی سالوں سے عورت مارچ کا بھرپور انداز میں اہتمام کیاجاتاہے ۔ ہر سال آٹھ مارچ کو یوم خواتین کے حقوق کے نام پر اسلام آباد، لاہور کراچی سمیت دیگر شہروں میں پڑھی لکھی، برگر فیملیز کی خواتین جس طرح بے ہودہ نعروں پر مبنی بینرز اور پلے کارڈز اٹھا کر احتجاج ریکارڈ کراتی ہیں.

اس سے مشرقی عوام کا سر شرم سے جھک جاتا ہے حالانکہ عورت جووفاکی علامت ہوتی ہے ۔یہ ہر روپ میں زندگی کا خوبصورت منظر ہوا کرتی ہیں۔۔دوسری طرف اگر جائزہ لیا جائے تو مغربی ممالک کے مقابلے میں مشرقی معاشرے میں آج بھی عورت کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ مغربی عورت مشرقی عورت کے مقابلے میں بے بس لاچار نظر آتی ہے۔

ظاہری طور پر تو وہ خوشحال دکھائی دیتی ہے مگر وہ اندر سے چکنا چور اوربے بسی کی تصویرہوتی ہے۔ مشرقی عورت کے مقابلے میں مغربی عورت ٹھوکریں کھا کھا کر اب سیدھے راستے پر چلنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔جبکہ ہمارے ہاں اس کے برعکس مغرب سے متاثر ایک طبقہ بضد ہے۔

قصور ان کا نہیں، بلکہ امریکہ، برطانیہ سمیت دیگر یورپی مغربی ممالک کا ہے جو این جی اوز کے ذریعے حقوق نسواں کے نام پر کبھی خواتین کے حقوق کے تحفظ کے نام پر تو کبھی میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگانے کی ڈیوٹی دے دیتے ہیں۔مغربی معاشرہ جو آج خواتین کے حقوق کی بات کررہاہے اسلام نے خواتین کو چودہ سو سال پہلے حقوق دئیے.

عزت، تحفظ، مقام، رتبہ، اہمیت اور ساتھ ساتھ حق و ملکیت وراثت سے حصہ بھی دینے کا حکم دیا۔پاکستان مہذب ملک ہے، ہمارے ملک یا اس سے بھی آگے پاک و ہند کی تہذیب و ثقافت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، یہاں عورت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ عورت مرد ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔

عورت مرد کے بغیر ادھوری ہے تو مرد بھی عورت کے بغیر کچھ نہیں ہے۔ مگر اغیار ایک سوچی سمجھی ساز ش کے تحت ہمارے خاندانی سسٹم کو توڑ کر ہماری نسلوں کو برباد کرنا چا رہی ہیں۔ ہر سال آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر خواتین کی جانب سے اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھائی جاتی ہے.

اس مرتبہ بھی مختلف شہروں میں ریلیاں اورتقریبات کاانعقاد کیاجارہاہے ۔لیکن در حقیقت خواتین کے اصل مسائل کی طرف توجہ نہیں دلائی جاتی خاص طور پر خواتین کو وراثت میں حصہ دینے، خواتین کو تعلیم دینے کے ساتھ ان کی معاشی ترقی کے حوالے سے کوئی بھی پلان پیش نہیں جاتا۔کیا ہمارے معاشرے سے زیادہ مغربی ممالک کی خواتین خوش ہیں؟

کیا یورپی خواتین کی وہاں وہ عزت وہ مقام ہے جو ہمارے معاشرے میں خواتین کو دیا جا رہا ہے۔ خدارا اس طرح کے پروپیگنڈے سے اجتناب کریں، یہ سلسلہ بہت خطرناک ہے۔ اس کا مقصد خواتین کی آزادی نہیں بلکہ خواتین تک پہنچنے کی آزادی ہے۔ہمارے یہاں کی خواتین مسائل کا شکار ضرور ہیں مگر یہ نہیں کہ وہ مرد سے نفرت کریں اور اس حد تک جائیں کہ وہ الگ ہی دنیا تلاش کرنے لگیں.

عورت کے نام پر عریانی، فحاشی، آوارہ گردی نہیں ہونی چاہیے بلکہ عورت کو وہ تمام حقوق دئیے جائیں جو اسلام دیتا ہے۔ خواتین کامطالبہ سماجی سطح پر نچلے درجے پر موجود عورت کا تحفظ ہونا چاہییے ۔عورت کی محنت اور اس کی مزدوری کو تسلیم کیا جائے، وہ گھر کا کام ہو، سکول ،کالج ، یونیورسٹی دفترکا یا کسی کھیت یا فیکٹری میں محنت کرنے والی عورت ہو.

یہ ضروری ہے کہ اس کی محنت کو سمجھا جائے اور اسے اس کی محنت کے مطابق اجرت دی جائے۔ گھر میں کام کرنے والی خاتون خانہ ہیں تو ان کی عزت کی جائے کیونکہ جب خاتون خانہ گھر سنبھالتی ہے تو اس گھر کا مرد باہر جا کر نوکری یا کاروبار کر پاتا ہے.

اس طرح یہ سمجھنا ہو گا کہ وہ خاتون خانہ اپنے خاندان کے معاشی استحکام میں برابر کا حصہ ڈال رہی ہے، اور اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہییے۔ عورت کی ضرورت ہے کہ اس کے تمام حقوق ادا کیے جائیں۔ ساتھ ساتھ وارثت کا حق اسے سب سے پہلے دیا جائے۔ اگر ایسا ہو گیا تو آج کی خواتین کل کی طاقتور خواتین ثابت ہو گی۔

Comments are closed.