انڈیااپنے سمندروں میں تیرے یا ڈوب مرے؟

وسی بابا

بھارتی اخبار دی پرنٹ کے ایڈیٹر شیکھر گپتا نے امریکی صدر جو بائیڈن کو بھیڑ کی کھال میں بھیڑ لکھا ہے۔ اس کا افیکٹ اور مزہ تو وہی بکری اوئے والا ہی ہے۔ پر یہ اس بھارتی غصے کا اظہار بھی ہے جو افغانستان کو لیکر ہمارا بھارت مہان ہر کسی پر جھاڑ رہا ہے۔

گپتا نے بائیڈن کے بارے میں کہا ہے کہ اس نے کبھی کوئی دلیری والا فیصلہ نہیں کیا۔ یہ ایبٹ آباد آپریشن سے بھی اوباما کو ڈراتا رہا تھا۔ پوچھتا رہا تھا کہ اگر یہ مشن ناکام ہوگیا تو پھر کیا ہوگا؟

شیکھر گپتا لکھتے ہیں افغانستان کا موازنہ ویتنام سے مت کرو۔ وہاں ایک قیادت موجود تھی اور تم ایک آرمی کے ساتھ لڑ رہے تھے۔ جسے چین سمیت پورے کمیونسٹ بلاک کی حمایت حاصل تھی۔ افغانستان میں تھا کیا جس سے لڑ رہے تھے اور جہاں ہار بھی گئے۔

اس کے بعد عمران خان پر دھیان ڈلواتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اس کو افغانوں کی آزادی بتاتا ہے، جنہوں نے غلامی کی زنجیریں توڑی ہیں، یعنی افغانستان کی ہار کا ملبہ غصہ جو بھی گرانا ہے وہ پاکستان نہیں تو کون؟

امریکا کے ساتھ شامل واجہ کے طور پر انڈیا بھی افغانستان پہنچا ہوا تھا۔ امریکی پالیسیوں کی حمایت کرتا وہاں خوار ہوکر اب حیران پریشان پھر رہا ہے۔ اگر آپ نے حیران پریشان والا لطیفہ نہیں سن رکھا تو احتیاطاً سن لیں۔

امریکا پر گرجتے برستے انڈین، روس کے ساتھ بھی چالاکیاں ہوشیاریاں کر رہے ہیں۔ ایشیا ٹائم نے اس کا کچھ احوال لکھا ہے۔ 24 اگست کو روسی صدر پیوٹن سے مودی کی ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی۔ دونوں نے ایک مستقل چینل بنانے پر اتفاق کیا، تاکہ افغانستان پر رابطہ رکھا جاسکے۔

انڈین اسپن ڈاکٹروں نے ایسی کہانی کھینچی کہ یہ تک کہنا شروع کردیا کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے روس انڈین خواہش کو مدِنظر رکھے گا۔ اس کو ایسے پیش کردیا جیسے پاکستان کو افغانستان سے باہر کردیا ہے۔ اب روس ہوگا، انڈیا ہوگا اور دونوں جنگل والے مور کے سامنے رقص کریں گے۔

پاک روس تعلقات کی حساسیت اور تناؤ ایک لمبی تاریخ رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان اور روس افغانستان سمیت بہت سے معاملات پر ایک دوسرے سے قریبی تعاون کررہے ہیں۔ پاکستان نے افغان طالبان سے روس کا رابطہ بھی کرایا، اور اب طالبان روس کے اچھے تعلقات ہیں جو بڑھ رہے ہیں۔

انڈین افغان طالبان کو ایک پاکستانی پراکسی سے زیادہ نہ کچھ سمجھتے ہیں نہ اس سے زیادہ کچھ سوچنے کو تیار ہوتے ہیں۔ لیکن روس طالبان کو افغانستان کی ایک حقیقت سمجھتا ہے۔ ان کے ساتھ مل کر چلنے کو اپنے مفادات کے مطابق جانتا ہے۔ داعش کے خلاف روس اور طالبان سب سے مضبوط اور موثر اتحادی بھی لگتے ہیں اب۔

روسی صدر پیوٹن نے مودی سے بات کرنے کے اگلے ہی دن پاکستانی وزیرِاعظم عمران خان سے بات کی۔ اس موقع پر جو ریڈ آؤٹ جاری کیا گیا اس میں کہا گیا کہ دونوں ملک باہمی تعاون کریں گے، مشترکہ کوششیں بھی کریں اور دوسروں کو ساتھ ملا کر بھی افغانستان کے حوالے سے اکٹھے کام کریں گے۔

ویسے آپس کی بات ہے روسی صدر 21 اگست کو مودی سے پہلے ترک صدر سے بھی افغانستان پر بات چیت کرچکے تھے۔ جس میں افغانستان میں مل کر چلنے اور وہاں مشترکہ حکومت بنانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

انڈیا سے روس کا ایک اختلاف بھی چل رہا ہے۔ وہ اختلاف کواڈ میں چین کے خلاف انڈیا کی شمولیت پر ہے۔ جس کی روس کھل کر مخالفت کرتا ہے۔۔کواڈیلیٹرل سیکیورٹی ڈائیلاگ یا کواڈ چار ملکی اتحاد ہے جس میں امریکا، جاپان، آسٹریلیا اور انڈیا شامل ہیں۔ اس کو ایشین ناٹو اتحاد بھی سمجھا یا بولا جاتا ہے۔ جس علاقے میں یہ فوکس کر رہا ہے وہاں چین کے کئی جگہوں پر پانی اور خشکی دونوں پر دعوے ہیں۔ اس لیے چین کے خلاف اس اتحاد کو ایک سیکیورٹی اتحاد بھی سمجھا جاتا ہے۔

اپنی ایک رپورٹ میں دی ڈپلومیٹ اسے کسی قسم کا سیکیورٹی اتحاد نہیں کہتا۔ اس اتحاد کی ضرورت افادیت بیان کرتے ہوئے کواڈ ملکوں کی قیادت نے واشنگٹن پوسٹ میں جو آرٹیکل لکھے تھے اس میں چین کا ذکر تک نہیں تھا۔

دی ڈپلومیٹ کے ہی مطابق یہ اک ڈھیلا ڈھالا اتحاد ہے جس کی توجہ ماحولیاتی تبدیلی اور ٹیکنالوجی شیئرنگ پر ہے۔ کورونا ویکسین بنانے اور شیئر کرنے میں اس اتحاد نے کامیابی سمیٹی ہے۔

اپنی ساری سازشی تھیوریوں کی مہارت ایک طرف رکھتے ہیں اور مان لیتے ہیں کہ کواڈ ایسا ہی ایک اتحاد ہے۔ لیکن اس اتحاد میں امریکا جس طرح انڈیا کو دھکیلتے ہوئے شامل کر رہا ہے کیا اس سے یہ نہیں لگتا امریکی بھارتیوں سے یہ کہہ رہے ہیں کہ مہاراج بس کریں، بہت ہوگئی بہادری۔ ایران، افغانستان اور اس سارے خطے میں جو پاکستان کے ساتھ لگتا ہے، آپ سے کچھ نہیں ہوگا۔ آپ نے بہت نام بنا لیا کام دکھا لیا۔ اب دونوں بھائی چلتے ہیں۔ آپ کو جاپان جیسا اتحادی اور آسٹریلیا جیسا ساتھی ملے گا۔ ٹیکنالوجی ترقی میں ساتھ شامل ہو اور چین کو چیلنج کرو۔

اگر چین کو افغانستان، ایران اور سینٹرل ایشیا سے چیلنج کرو گے تو وہاں پاکستان بھی ہوگا، اب کیا اسی سے ساری عمر گھلتے رہو گے۔ فوکس تبدیل کرو۔ بظاہر تو لگتا ہے کہ امریکی ہمارے ساتھ نیکی کررہے ہیں۔

اپنا خیال ایسا نہیں ہے۔ ہمیں جس خطے میں امریکی انڈیا سے چھڑا رہے ہیں وہاں چین، روس، ایران، افغانستان اور سینٹرل ایشیا، کسی جگہ بھی جمہوریت نہ تو ہے، نہ آئندہ کبھی ہوگی۔ ہمارے پاس بھی جیسی جمہوریت ہے اس کے پیچھے سے حوالدار بشیر جھانکتا سب کو دکھائی دے جاتا ہے۔ تو یہاں جب ہم اکیلے جمہوری رہ گئے تو اس کے نتائج پر اچھی سوچنا تو بنتا ہے کہ ایسا ہوا تو ہمارا نظام کسی دباؤ کا شکار تو نہیں ہوگا؟

انڈیا کو اس خطے سے لے جانے والی بات آپ کو دُور کی کوڑی اور گپ لگی ہوگی؟ لیکن شیکھر گپتا نے 21 اگست کو تفصیل سے لکھا کہ کیوں انڈیا کو افغانستان، پاکستان اور ٹیررازم کو بھول کر اپنی اسٹریٹجی کا منہ سمندروں کی طرف کر لینا چاہیے۔

انڈیا یہاں سے فوکس بدلتا ہے، پھر دل تو ہمارا بہت کچھ کرنے کو چاہے گا۔ لیکن وہی جہاں مامتا وہاں ڈالڈا۔ امریکیوں نے ہم سے لاڈ کرنے سے رکنا ہے نہ ہمیں گائیڈ کرنے سے۔ چلیں کرتے رہیں۔ پہلے انڈیا تو اپنے سمندروں میں کودے پھر ڈوبے یا تیرے۔ ہم اپنا کچھ کر کرا ہی لیں گے۔
( بشکریہ ڈان نیوز ویب)

Comments are closed.