دو کشتیوں کے سوار

طارق عثمانی

آج کا انسان بیک وقت دو فائدے حاصل کرنا چاہتا ہے اسی دو طرفہ مزاج کی بنا پر وہ اپنے اندر دو کشتیوں میں سواری کا خیالی منصوبہ بناتا ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ وہ معاشرے اور سماج میں عزت بھی کمائے، دوسروں سے الگ تھلگ معزز بھی نظر آئے۔ اچھی شہرت سے وہ سماج میں پاک دامنی کے ثمرات حاصل کرے لیکن دوسری طرف اس کے اندر کی ہوس اور بھوک اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ جائز ناجائز طریقے سے بہت ساری دولت بھی سنبھال لے جس سے اس کی آنے والی نسلیں بھی بیٹھ کر کھاتی رہیں.

ایسے ہی لوگ بیک وقت دو کشتیوں کے سوار ہوتے ہیں، ایسے دو طرح کے منفی خیالات کے حامل لوگوں کی کوئی تین سو سے بھی زیادہ مثالیں کوڈ کر سکتا ہوں جو میں نے دوران رپورٹنگ اخبارات میں شائع کی ہیں۔ جن لوگوں نے آئندہ نسلوں کی خاطر اپنی آخرت تباہ کی اور ان کی پہلی نسل نے ہی ان کی موجودگی میں ایسے ہی منفی ذرائع سے باپ کی اکٹھی دولت پر ایسے ایسے فسادات برپا کیے کہ دو کشتیوں کے سوار ایسے لوگوں کو میں نے اکثر روتے دیکھا ہے.

وہ موت کی دعائیں مانگتے تھے اللہ انھیں موت نہیں دے رہا تھا۔ میں نے ایسے دو کشتیوں کی سواری کے شوقین لوگوں کی خود کرائم سٹوریز شائع کی ہیں جنھوں نے کنپٹی پر پستول سے گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ حرام موت سے کیا ہے۔ دو کشتی کے یہ سوار لوگ کوئی ان پڑھ یا گنوار لوگ نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، کوئی بڑا صنعتکار تھا، کسی نے شہرت کی بلندیوں کو چھو کر ڈھیر سارا روپیہ پیسہ اور جائیدادیں بنائی تھیں۔

میں نے اسلام آباد میں ان بڑے نامی گرامی سرکاری حکومتی عہدیداروں کی اموات کے اسباب کی جو تحقیقاتی رپورٹس شائع کی ہیں وہ سب کے سب پڑھے لکھے ہونے اور کئی تعلیمی ڈگریاں رکھنے کے باوجود یہ نہیں سمجھ سکے کہ جو دولت وہ آئندہ نسلوں کے لیے اکٹھی کررہے ہیں وہ ان کی اپنی تباہی اور بربادی کا سب سے بڑا سبب بننے جارہی ہے، شہر اقتدار ایسے سچے قصوں سے بھرا پڑا ہے۔

ثمینہ خان ایڈووکیٹ، وفاقی دارالحکومت کی ایک منجھی ہوئی، سلجھی، معاملہ فہم مشہور و معروف قانون دان ہیں۔ پچھلے دنوں بتا رہی تھیں کہ اسلام آباد کی فیملی کورٹس جائیداد اور لوگوں کے گھریلو تنازعات سے بھر گئی ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سماج کے ہر گھر میں جائیداد اور اپنے ہی بچوں کی تقسیم کا جھگڑا اس معاشرے کو کسی اندھے کنویں میں پھینکنے جارہا ہے.

ثمینہ خان ایڈووکیٹ کے نزدیک اگر لوگ فیملی کورٹس کے کم از کم ایک کیس کی سماعت سن لیں یا ان مقدمات کو کھلی آنکھوں سے پڑھ لیں تو جو انسان ہے،جس کے اندر تھوڑی بہت انسانیت موجود ہے اس کے رونگھٹے کھڑے ہو جائیں کہ جس معاشرے کا ہم حصہ ہیں اس کی تشکیل ہم کن کن منفی بنیادوں پر کررہے ہیں۔ ماں بچے چھیننا چاہتی ہے، باپ سڑکوں پر دربدر ہے، اولاد ورثے کی جائیداد پر لہو لہان ہے.

بھائی بھائی کو قتل کر رہا ہے، یہ ساری صورتحال اس سماج کے ایک بھیانک مستقبل کی عکاسی سر عام اور سب کی آنکھوں کے سامنے کررہی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھنے، سننے اور نظر آنے کے باوجود سوچ و فکر کے حامل مدبر، دانشور، میڈیا، سرکار سبھی کا خاموش تماشائی کا کردار ایک بڑے انسانی المیہ کو جنم دے چکا ہے۔

اس عیاں حقیقت میں دو کشتیوں پر سوار ہمارے سماج کی سوچ کے اس بے قید معاشرے کی نشاندہی ہے جس میں ہم سب جی رہے ہیں۔ لوگوں کو فکر و دانش سے مالامال کرنے والے دانشور اسی دو کشتی کے سوار ہیں جس میں اپنی نسلوں کو کوئی پختہ اور حقیقی سوچ دینے کی بجائے ان کو شہرت سے لوٹی جانے والی دولت دے رہے ہیں۔ قوم کو تقسیم در تقسیم کرنے والے لیڈر سماج کی اسی دو کشتی پر سوار ہوکر ہمیں جو عملی سبق آج دے رہے ہیں.

اس سے پہلے والے لوگوں کے ایسے ہی منفی اصولوں کے رواج میں اپنی کنپٹی پر پستول کی گولی مار کر حرام موت مر چکے ہیں۔ صنعت کا پہیہ چلانے والا آج کا صنعتی سرمایہ کار اسی دو کشتی کی سواری کی بے عملی سوچ پر گامزن ہے جس پر اس سے پہلے والے کی موت پر اس کی میت اٹھانے کے لیےاس کے اپنے بچے بھی نہیں آئے.

آج کا باپ پہلے والے باپ کو سڑکوں پر دربدر ٹھوکریں کھاتے اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی اسی کشتی پر سوار ہونا چاہتا ہے جس پر پہلے والے باپ نے اولاد کے سنہری مستقبل کی خاطر اپنا اور پوری نسل کا ہی مستقبل برباد کردیا۔ کوئی آدمی اپنا اور پورے سماج کا مستقبل دو کشتیوں والی سواری کی سوچ سے نہیں بنا سکتا۔

سماج کے ایک ایک رہبر، ایک ایک دانشور، ایک ایک فرد کو واضح مثبت سوچ اپنانی ہوگی۔ دو کشتیوں کی بجائے ایک صحیح عمل والی کشتی پر سوار ہونا ہوگا۔ سماج اور صحیح معنوں میں سنہری مستقبل بنانے کے لیے دوسری منفی سوچ والی کشتی کو چھوڑنا ہوگا عمل کی کشتی پر سوار ہونا ہوگا منزل تک پہنچنے کے لیے دوسری کشتی والی ادھوری راہ کو چھوڑنا ہوگا۔ سچا، حقیقی، پائیدار مستقبل دو کشتی کی سواری سے ناممکن ہے، سماج کی ہمیشہ رہنے والی ترقی اور اس کی صحیح سمت میں منزل ایک کشتی کی سواری ہے اس کے سوا کوئی دوسرا انتخاب نہیں۔

Comments are closed.