ارشد شریف، وہ کون تھا؟

47 / 100
محمد حنیف

آج سے گیارہ سال پہلے پاکستان کا ایک صحافی گھر سے سوٹ بوٹ پہن کر کسی ٹی وی شو میں شریک ہونے کے لیے نکلا۔ سلیم شہزاد دفاعی امور اور دہشت گردی کے بارے میں رپورٹنگ کرتا تھا۔

اس زمانے میں وردی اور دہشت گردی والا نعرہ ابھی ایجاد نہیں ہوا تھا لیکن سلیم شہزاد کچھ ایسی خبریں نکال لاتا تھا جو اس ملک کے حساس لوگوں کو ناگوار گزرتی تھیں۔

اس پس منظر میں سلیم شہزاد عین اسلام آباد کے بیج سے گھر سے سٹوڈیو جاتے ہوئے غائب ہو گیا۔ پھر کوئی ڈیڑھ سو میل دور ایک نہر میں اس کی لاش ملی۔ جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔

افسوس بھی ہوا، ڈر زیادہ لگا۔ جنازہ کراچی میں ہوا۔ میں بھی شریک ہوا، دعائے مغفرت کی اور بغیر کسی صحافی بھائی سے بات کیے گھر چلا گیا۔

چند دن بعد کسی اور کام سے اسلام آباد جانا ہوا تو پتا چلا کہ سلیم شہزاد کے لیے انصاف مانگنے کے لیے صحافی برادری ایک احتجاجی مظاہرہ کر رہی ہے۔ خوشگوار حیرت ہوئی کہ مظاہرے میں اسلام آباد کے تمام مشہور صحافی موجود تھے۔

میری زیادہ تر سے ذاتی واقفیت نہیں تھی لیکن انھیں ٹی وی پر دیکھتے ہوئے یا اخباروں میں پڑھنے کی وجہ سے ان کے سیاسی رجحانات سے واقف تھا۔

بازو لہرانے اور شہزاد تیرے خون سے انقلاب آئے گا، جیسے نعرے لگانے کے دوران میں نے پاکستان کے چند جید ترین صحافیوں سے علیحدہ علیحدہ آف دی ریکارڈ گفتگو کی۔

سوال سب سے ایک ہی پوچھا کہ انھیں کس پر شک ہے؟ ان کا جواب سن کر دل ایک بار پھر خوف سے بھر گیا کیونکہ سب کا جواب ایک ہی تھا لیکن اس جواب کی توجیحات متنوع تھیں۔

ایک بزرگ نے کہا کہ یہ کوئی نوشکی یا نواب شاہ نہیں، جہاں دن دیہاڑے صحافی کو اٹھا لو، یہ اسلام آباد ہے، بتاؤ یہاں کبھی کسی صحافی کو اٹھایا گیا ہے۔ اگر انھوں نے اٹھایا بھی ہے تو چائے پانی کے لیے بلایا گیا ہو گا اور ساتھ کچھ سوال پوچھنے ہوں گے۔

چائے پانی کے لیے اٹھایا جانے والا بندہ نہر کی تہہ تک کیسے پہنچ گیا؟ اس سوال کا جواب ایک کونے میں لے جا کر ایک بہت ہی سینیئر اور معروف صحافی نے دیا۔ فرمایا کہ کام تو ان کا ہی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ وہ کرنا نہیں چاہتے تھے۔

میں نے پوچھا کہ بغیر نیت کے بندہ کیسے مارا جا سکتا ہے؟ بتایا گیا کہ انھوں نے تشدد یقیناً کیا ہو گا لیکن شہزاد دل کا مریض بھی تھا، انھیں پتا نہیں تھا کہ اس مار کٹائی کے درمیان کہیں مارا گیا۔

اب اس کے بعد تھوڑا دور لے جا کر لاش چھپانا اور حادثے یا خودکشی کی شکل دینا، تو ایک مجبوری تھی۔

مجھے دو باتوں پر حیرت ہوئی کہ یہ میری ساری صحافی برادری کھڑی ہے، قاتل کا نام سب جانتے ہیں لیکن مطالبہ کر رہے ہیں کہ انکوائری کمیشن بنایا جائے۔ (وہ کمیشن بنا بھی، کئی صحافی پیش بھی ہوئے لیکن آج تک کوئی ہمیں سلیم شہزاد کے قاتلوں کے نام نہیں بتا سکا)

دوسری حیرت اس بات پر ہوئی کہ ہمارے حساس اداروں کے جی داروں کی ٹریننگ ناقص ہے یا ان کے ہاتھ اتنے کھل گئے ہیں کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بندہ مار دیتے ہیں اور اس کے بعد کہتے ہیں کہ اداروں کو بدنام نہ کیا جائے۔ انھی اداروں کی بدنامی کے لیے حامد میر نے اپنے آپ کو گولیاں مروائی اور کراچی میں ہماری بہن سبین محمود اپنی جان سے گئی۔

ارشد شریف کے سب سجن دشمن غمزدہ ہیں، یقیناً خوفزدہ بھی ہوں گے اور سب مل کر انکوائری کمیشن، انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کرنا بھی چاہیے لیکن پاکستان کے تمام اخبارات، چینلوں میں سے کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ایک رپورٹر کو ہی کینیا بھیج دیتے۔ کوئی جائے وقوعہ سے ہی لائیو بیپر دے دیتا۔

وہ تو شکر ہے کینیا کے کرائم رپورٹروں کا جنھوں نے ہمیں بتایا کہ کینیا کی پولیس پنجاب پولس سے دو چار ہاتھ آگے ہے اور جو کہانی بتا رہے ہیں، یہ جھوٹ ہے اور کینیا کی پولس بندہ مارنے کے بعد ایسی کہانیاں سناتی رہتی ہے۔

ہماری صحافی برادری نے اس سانحے پر خود رپورٹنگ کرنے کی زحمت شاید اس لیے نہیں کی کہ شاید ہم جانتے ہیں کہ ہماری رپورٹنگ نہ ارشد شریف کو قبر سے نکال کر لا سکتی ہے نہ قاتلوں کا سراغ لگا سکتی ہے۔

اب ہم ایک دوسرے کو یہ ہی کہہ سکتے ہیں کہ لاشوں پر سیاست نہ کی جائے۔ اگر ہماری سیاست ہمیں لاشیں دے گی تو ان لاشوں پر سیاست بھی ہو گی۔

ارشد شریف کو پاکستان میں اپنی جان کا خطرہ تھا، اس لیے وہ ملک سے بھاگا۔ پھر دبئی سے بھاگ کر کینیا پہنچا اور آخر کار اس کی رپورٹر والی جبلت درست ثابت ہوئی۔ جن سے جان کو خطرہ تھا، انھوں نے جان لی۔

جن سے جان کو خطرہ تھا، سب جانتے ہیں۔ جنھوں نے جان لی، ہم کبھی ان کا نام نہیں لے پائیں گے۔

ارشد شریف نے چند مہینے پہلے اپنے ٹی وی پروگرام میں سوال اٹھایا تھا کہ وہ کون تھا؟ پروگرام کافی وائرل ہوا، کاش ہم ایک بار ارشد شریف سے پوچھ سکتے کہ اب بتا ہی دو کہ وہ کون تھا۔(بشکریہ بی سی اردو)

Comments are closed.