ملیاڑی راک ایلینز لے گئے

52 / 100

مقصود منتظر 

اڑن طشتری نے عین نصف شب حویلی کے نو ایکسپلورر شدہ سیاحتی مقام پر لینڈ کیا. اس وقت  گہرے سیاہ بادل آسمان پر تیزی سے منڈلا رہے تھے اور وقفے وقفے سے سخت قسم کی بجلیاں بھی کڑک رہی تھیں. اسی دوران ہمارے نظام شمسی میں موجود ایک پارسا سیارے کے چند ایلنز حویلی میں اترے اور  ملیاڑی راک کا بغور جائزہ لیا….

حویلی کے لوگوں کو آسمانی بجلیوں کےکڑکنے اور چمکنے کی وجہ سے اڑن طشتری کے اترنے کی بھنگ نہ پڑسکی. ورنہ کوئی گبرو جوان ضرور اس کی نشاندہی کرکے ضلع کے اثاثے کا دفاع کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا. 

خیر… ایلینز نے ہوا میں معلق راک کا جائزہ لیا اور آس پاس کی مخلوق کو خواب گاہوں میں پاکر اپنا مشن مکمل کرنے میں فٹ سے جھٹ گئے… کسی لوہے جیسے اوزار سے ایلنز نے فٹافٹ کیماڑی راک کو کاٹ کر اڑنے والی راکٹ نما طشتری میں ڈال دیا اور پارسا سیارے پر موجود اپنے ہم مکینوں کو مشن ڈن کی  رپورٹ  دی…. پارسا سیارے پر بریک کیماڑی راک مشن کی نگرانی کرنے والا سینٹر تالیوں سے گونج اٹھا اور مشن کی کامیابی پر سن نے ایک دوسرے کوگلے لگایا ….

ادھر گہرے بادلوں میں زمین سے  اڑن طشتری نے اڑان بھری اور خلائی مخلوق کو واپس اپنے پارسا سیارے پر لے گئی..

ایلینز ملیاڑی راک کو کیوں لے گئے؟ انہیں اس بے حیا راک کے کارناموں کا کیسے علم  ہوا اور وہ اس بے شرم پتھر سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

کہتے ہیں یہاں کا ایک پارسا مولوی صاحب  اس پتھر اور اس سے علاقے میں پھیلنے والی بے حیائی سے سخت فکر مند تھا… وہ اپنے تشویش کا بار بار اظہار کرتا تھا..

حتیٰ کہ وہ اکثر جمعہ کے خطبات اور دیگر محافل میں اس کا ذکر بھی فرماتا تھا اور ملیاڑی راک کو برا بھلا کہتا تھا…

چونکہ لاوڈ اسپیکر کے سبب مولانا صاحب کی یہ گفتگو مسجد کی چار دیواری تک محدود نہیں رہتی تھی. مولانا کی تشویش اور تحفظات سے پورا علاقہ واقف تھا. اور بعض اس کے خاص حامی بھی بن چکے تھے. 

پھر ہوا یوں ایک دن مولانا صاحب بے شرم راک کی شلوار اتار رہا تھا کہ اسی دوران پارسا سیارے کی مخلوق کا یہاں سے پہلی بار گزر ہوا…

ان کے خود کارسسٹم نے مولانا کی گفتگو کیچ کی اور ساتھ ہی اپنی بھاشا میں ٹرانسمٹ کردی.. ایلینز نے گفتگو کا حاصل سمجھ کر تعجب کا اظہار کیا اور آناً فاناً اپنے سیارے کا رخ کیا…

زمین پر آنے والے ایلینز نے اپنے پلینٹ پر پہنچ کر ساری صورتحال اپنے سربراہ اور تحقیقی ٹیم کے ممبران کے سامنے رکھی تو یک دم پورے سنٹر میں خاموش چھاگئی. سارے ایک دوسرے کے منہ دیکھنے لگے. پھر سربراہ نے.. بریک ملیاڑی راک مشن… کا اعلان کرتے ہی اسے توڑ کر اس کے کچھ نمونے پارسا سیارے پر لانے کا ٹاسک چند ہم نواہوں کو سونپ دیا….

پارسا سیارے والوں کو آخر ان نمونوں کو اوہر لے جانے اور ان کی جانچ کرنے کی بھلا کیوں سوجھی..؟ 

اس سے متعلق امکان ہے کہ پارسا پر بھی اس طرح کا لٹکتا پتھر کسی پہاڑی پر موجود ہے.. چونکہ سیارہ پارسا پر پارسائی عام ہے اور غالب امکان  یہ ہے کہ وہاں موجود کیماڑی  جیسے بے حیا اور بے شرم راک کی وجہ سے بھی آس پاس کا ماحول خراب ہونے کا خدشہ ہے…

سو وہ حویلی کے پتھر کے ٹکڑوں پر تحقیق کریں گے جس کے دوران وہ یہ جانے کی کوشش کریں گے کہ اس بے جان اور بے زر پتھر میں آخری یہ بے شرمی اور بے حیائی کا وائرس داخل کیسے اور کیوں ہوا…؟

جب تحقیق سے انہیں کوئی سراغ مل جائے گا تو وہ اپنے پتھر کو اس وائرس سے بچا سکیں گے. یوں پارسا سیارہ بے حیائی سے محفوظ ریے گا…

ملیاڑی راک صدیوں سے حویلی فارورڈ کہوٹہ آزادکشمیر میں معلق ہے. اس نے یقیناً کئی مذاہب کے لوگ دیکھے ہوں. کشمیر پر جابر حکمران کا جبر بھی دیکھا.

تاریخ کے مطابق حویلی مغلوں کا روٹ بھی رہا. لیکن اس راک کو کسی نے فنا نہیں کیا… نہ کسی نے اس کی پارسائی پر انگلی اٹھائی.. ہوا میں سجدہ کیے اس راک کو غیر مسلموں سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا نہ اسے کسی نے سجدے سے سر اٹھانے کا کہا.. صرف آج کے مولوی صاحب کو اس کے سجدے سے اعتراض ہوا. اور پھر اس کا سر سجدے میں ہی قلم کروادیا… 

ایلینز نے بے حیائی کی جڑ کو اکھاڑ کر اہلیان حویلی کو بڑی سماجی تباہی سے بچا لیا.. اب اس علاقے میں بے حیائی کا نام و نشان تک نہیں رہا… اب یہاں سارے پارسا کہلائیں گے…

اب مسئلہ صرف یہ ہے کہ پلیس پکڑے تو کسے پکڑ ے. رپٹ درج کرے تو کرے کس کیخلاف. کیونکہ کسی نے ایلینز کو ملیاڑی راک کو راکھ کا ڈھیر بناتے ہوئے نہیں دیکھا.. یعنی کوئی گواہ ہے نہ شاہد… اور بالفرض کوئی گواہ سامنے آ بھی جائے تو  زمینی مخلوق میں اتنا دم خم ہے نہیں کہ وہ ایلینز کو پکڑ سکیں…

مطلب اب یہ لوگوں کا شور شرابہ محض واویلا ہے جو چند ہفتے تک رہے گا. پھر اللہ اللہ خیر صلح…

بہتر یہ ہے کہ ملیاڑی راک کا جنازہ ادا کرکے اس کی بخشش کیلئے دعاکی جائے کیونکہ بے حیائی پتھر پارساوں کی بستی میں شدید ترین بے حیا اور بے شرم تھی…..

ملیاڑی راک ایلینز لے گئے

Comments are closed.