طالبان حکومت کا تاریخی اعلان، یونیورسٹیز میں مخلوط نظام تعلیم ختم

43 / 100

فوٹو: اے ایف پی

کابل( ویب ڈیسک)افغانستان میں طالبان حکومت نے تاریخی تعلیمی پالیسی کااعلان کردیاہے اور یونیورسٹیز میں خواتین کی تعلیم روکنے کی بجائے اسلامی شعار کے مطابق طریقہ کار کااعلان کردیا گیاہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق نئی تعلیمی پالیسی کااعلان طالبان کی عبوری حکومت کے ہائیر ایجوکیشن کے وزیر عبدالباقی حقانی نے پریس کانفرنس میں کیا ہے اور واضح کیاہے کہ افغانستان میں طالبات کو یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روکا جائے گا۔

طالبان حکومت حکومت نے یونیورسٹیز میں عملاٰ مخلوط نظام تعلیم کی جگہ طالبات اور طلبہ کو الگ تقسیم دے دی ہے جس میں دونوں کے درمیان پردے کا خصوصی خیال رکھا جائے گا۔

رپورٹ کے مطابق ہائیر ایجوکیشن کے وزیر عبدالباقی حقانی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں یونیورسٹیوں کو صنف کے لحاظ سے تقسیم کیا جائے گا ، ساتھ ہی طالبات کے لیے نیا ڈریس کوڈ بھی متعارف کروایا جائے گا۔

انھوں نے بتایا کہ ان کی حکومت میں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہوگی لیکن خواتین مردوں کے ساتھ تعلیم حاصل نہیں کرپائیں گی۔ ساتھ ہی تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔

اس سے قبل افغانستان میں بھی مخلوط تعلیمی نظام کا سلسلہ جاری تھا جس کے تحت لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ تعلیم حاصل کیا کرتے تھے تاہم طالبان حکومت نے اسلام میں پردے کے حکم کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مخلوط تعلیم کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیاہے۔

عبدالباقی حقانی نے کہا کہ ہمیں افغانستان میں مخلوط نظام تعلیم ختم کرنے میں کوئی مشکل درپیش نہیں ہے، لوگ مسلمان ہیں وہ اس تبدیلی کو قبول کریں گے انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ہماری اس تبدیلی کو دیگر اسلامی ممالک بھی رول ماڈل کے طور لیں گے۔

انھوں نے کہا کہ یہ کوئی انوکھا فیصلہ نہیں ہے ایک یہ اسلامی شعار کے مطابق ہے دوسراافغانستان میں اب بھی پہلے کی طرح لڑکے لڑکیوں کو پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں بھی علیحدہ علیحدہ پڑھایا جائے گا۔

وزیر ہائیر ایجوکیشن نے کہا کہ درس گاہوں میں خواتین کو حجاب پہننے کی ضرورت ہوگی تاہم وزیر تعلیم کی جانب سے یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں خواتین کو چہرے ڈھانپنا لازمی ہوگا یا نہیں۔

دوسری طرف پاکستان میں بھی مذہبی حلقوں نے افغانستان میں مخلوط تعلیم ختم کرنے کے فیصلہ کا خیر مقدم کیاہے اور مطالبہ کیاہے کہ پاکستان کی یونیورسٹیز میں بھی مخلوط نظام تعلیم ختم کیا جانا چایئے جو کہ اسلامی تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔

واضح رہے اس سے قبل طالبان کی سابقہ حکومت میں خواتین کے لیے خاصے سخت قوانین نافذ کیے گئے تھے جن کے تحت 1996 سے 2001 کیدوران خواتین کو اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم کی اجازت نہیں تھی۔

یہ بھی کہ مخلوط نظام تعلیم میں ہر ملک میں خاص کو یونیورسٹیز میں آئے روز طالبات اور اساتذہ ، دفاتر میں کام کرنے والوں اور خود طلبہ و طالبات کے سکینڈلز منظر عام پر آتے رہتے ہیں اور کوئی بھی جامعہ اس اخلاقی پستی سے مبرا نہیں ہے۔

 

 

Comments are closed.