پاکستان میں سیاسی و معاشی اشرافیہ سرکاری پالیسیوں پر قابض،اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہے،آئی ایم ایف

آئی ایم ایف رپورٹ، پاکستان میں بدعنوانی، گورننس بحران، سیاسی اشرافیہ، معاشی اشرافیہ، پالیسیوں پر قبضہ، ایس آئی ایف سی اختیارات، شفافیت کے مسائل، حکومتی اصلاحات، 15 نکاتی ایجنڈا، ٹیکس نظام کی پیچیدگیاں، عدالتی نظام کی خامیاں، کرپشن میں اضافہ، چینی اسکینڈل 2019، شوگر ملز مالکان، کرپشن کے نقصانات، معاشی ترقی میں رکاوٹیں

فوٹو : فائل

اسلام آباد: عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے گورنس،ترقی کے دعووں اورکرپشن کے حوالے سے حکومتی کارکردگی پرسوالات اٹھا دئیے،حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں سیاسی و معاشی اشرافیہ سرکاری پالیسیوں پر قبضہ جما کر اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہے،آئی ایم ایف کے مطابق اس عمل سے معاشی ترقی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

 رپورٹ کے  مطابق پاکستان میں سیاسی اور معاشی اشرافیہ سرکاری پالیسیوں پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کی وجہ سے معاشی ترقی میں سنگین رکاوٹیں پیدا کر رہی ہے۔

آئی ایم ایف نے ’گورننس اور بدعنوانی‘ کے عنوان سے جاری رپورٹ میں مسلسل بڑھتی ہوئی کرپشن کے خدشات کا ذکر کرتے ہوئے فوری طور پر 15 نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ رپورٹ کا دائرہ کار صرف وفاقی سطح کی کرپشن اور گورننس تک محدود رکھا گیا ہے۔

ایس آئی ایف سی کے اختیارات اور شفافیت پر آئی ایم ایف کے سوالات

رپورٹ میں اہم سرکاری اداروں کو حکومتی ٹھیکوں میں دی جانے والی خصوصی مراعات ختم کرنے، ایس آئی ایف سی کے فیصلوں میں شفافیت بڑھانے اور حکومت کے مالیاتی اختیارات پر سخت پارلیمانی نگرانی کی سفارش کی گئی ہے۔

آئی ایم ایف نے ایس آئی ایف سی کے اختیارات، استثنا اور شفافیت پر سوالات اٹھاتے ہوئے فوری طور پر ایس آئی ایف سی کی سالانہ رپورٹ جاری کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

مزید یہ کہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تمام سرکاری خریداری کو 12 ماہ میں ای گورننس سسٹم پر منتقل کیا جائے تاکہ پالیسی سازی اور عملدرآمد میں شفافیت اور جواب دہی کو یقینی بنایا جا سکے۔

اشرافیہ کی پالیسیوں پر گرفت معیشت کے لیے نقصان دہ

آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاسی و معاشی اشرافیہ سرکاری پالیسیوں پر قبضہ جما کر اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہے،آئی ایم ایف کے مطابق اس عمل سے معاشی ترقی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اگر کرپشن میں کمی اور گورننس بہتر ہو جائے تو پاکستان کی معیشت میں 5 سے 6.5 فیصد تک بہتری آسکتی ہے جبکہ آئندہ پانچ سال میں جی ڈی پی میں 6.5 فیصد اضافہ ممکن ہے۔

رپورٹ کے مطابق ٹیکس نظام کی پیچیدگی، انتظامی کمزوری اور کمزور نگرانی بدعنوانی کو فروغ دے رہی ہے۔ عدالتی نظام میں سست روی اور پیچیدگی معاشی سرگرمیوں کو متاثر کرتی ہے۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب میں کمی بھی کرپشن کے خطرات کو ظاہر کرتی ہے جبکہ بجٹ اور اخراجات کے درمیان نمایاں فرق حکومتی مالیاتی شفافیت پر سوالات کھڑے کرتا ہے۔

کرپشن، عدلیہ پر عوام کے عدم اعتماد کی بڑی وجہ

رپورٹ میں کہا گیا کہ انسدادِ بدعنوانی کی پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے اور اداروں کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھنے سے عوام کا اعتماد بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ عوام کو بنیادی سرکاری سروسز کے حصول کے لیے بار بار ادائیگیاں کرنا پڑتی ہیں جبکہ بیوروکریسی کے زیر اثر بعض اضلاع کو زیادہ ترقیاتی فنڈز ملتے رہے ہیں۔

چینی اسکینڈل: اشرافیہ کا مفاداتی کنٹرول آشکار

آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2019 میں پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے چینی کی برآمد کی اجازت اس بات کی واضح مثال ہے کہ اشرافیہ پالیسیوں پر قبضہ رکھ کر اپنے مالی مفادات حاصل کرتی رہی ہے۔ سرکاری عہدوں پر براجمان شوگر ملز مالکان نے اپنے اثر و رسوخ سے برآمدات اور قیمتوں کے تعین کی پالیسیوں پر اثر انداز ہو کر مسابقت کو نقصان پہنچایا۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ وافر ذخائر کے باوجود شوگر مل مالکان نے ملی بھگت سے مصنوعی قلت پیدا کی، قیمتوں میں ہیرا پھیری کی اور صارفین کو نقصان پہنچایا۔ چینی تحقیقاتی رپورٹ میں سیاسی ہیوی ویٹ شخصیات کو بھی ذمہ دار قرار دیا گیا اور یہ ثابت ہوا کہ برآمدی دباؤ کی وجہ سے چینی کی قیمتیں بڑھیں۔

عدالتی نظام پر بھی سنگین سوالات

رپورٹ میں بتایا گیا کہ عدالتی نظام پرانے قوانین، ججوں اور عدالتی عملے کی دیانت داری سے متعلق مسائل کی وجہ سے معاہدوں کے نفاذ اور جائیداد کے حقوق کے تحفظ میں ناکام نظر آ رہا ہے۔ کرپشن عدالتی کارکردگی کو متاثر کرنے والے بڑے عوامل میں سے ایک ہے۔

نیشنل کرپشن سروے کے مطابق عدلیہ کو پولیس اور پبلک پروکیورمنٹ کے ساتھ پاکستان کے سب سے زیادہ کرپٹ شعبوں میں شمار کیا گیا ہے، جو عوام کے اعتماد میں کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کے عدالتی نظام کو عدالتی آزادی کے عملی چیلنجز کا سامنا ہے جبکہ 26ویں آئینی ترمیم نے چیف جسٹس کے تقرری کے عمل میں بھی تبدیلیاں پیدا کیں اور جوڈیشل کمیشن میں ممبران کی تعداد بڑھنے کے اثرات سامنے آئے۔

نیب کی ریکوریز بھی معاشی نقصان کا معمولی حصہ

آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق جنوری 2023 سے دسمبر 2024 تک نیب نے 5.3 ٹریلین روپے کی ریکوری کی، تاہم یہ رقم پاکستان کی مجموعی معاشی نقصان کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔

پاکستان میں سیاسی و معاشی اشرافیہ سرکاری پالیسیوں پر قابض،اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہے،آئی ایم ایف

Comments are closed.