جانوروں کا ’’نیوٹرل‘‘ کہنے پر احتجاج

8 / 100
مظہر عباس

وزیر اعظم عمران خان کے جانوروں کو ’نیوٹرل‘کہنے کی خبر’جنگل‘ میں آگ کی طرح پھیلی اور ملک بھر کے جانوروں نے ایک مراسلہ کے ذریعےان سے اپنے الفاظ واپس لینے کی درخواست کی ہے۔ اپنے ایک غیر معمولی اجلاس میں انہوں نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ انسانوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی میں آخر جانوروں کی اصطلاح کیوں استعمال ہورہی ہے مثلاً ’ہارس ٹریڈنگ‘ یا تین چوہے حالانکہ پانچ چوہے گھر سے نکلے تھے دوشاید ملنگ ہیں۔

جانوروں کے سردار ببر شیر نے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سیاست دانوں کو وارننگ دی کہ اگر ان کے ساتھ یہ مذاق بند نہ ہوا تو وہ احتجاج کا ہر آپشن استعمال کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں ’جنگل سے ڈی چوک‘ تک لانگ مارچ سمیت اور اگر انہیں زور زبردستی سے روکنے کی کوشش کی گئی تو وہ جوابی حملوں کا آپشن بھی استعمال کرسکتے ہیں۔مختلف اقسام کے جانوروں نے خاص طور پر جنہیں انسان اپنی حفاظت کے لیے رکھتا ہے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ وہ تو ہمیشہ سے وفادار رہا ہے اسےغیر جانبدار کہہ دیا۔ دوسری طرف انسانوں کی ‘ وفاداری‘ دیکھنی ہوتو ’عدم اعتماد‘ کی تحریک آتے ہی وفاداری تبدیل کرنے یا نہ کرنے کی صورت میں سامنے آ جائے گی۔

تاہم اجلاس میں اس وقت کشیدگی پیدا ہوگئی جب کچھ جانوروں نے خود سردار کی صدارت پر سوال اٹھا دیا کہ وہ ہر مشکل وقت میں جنگل سے فرار ہوکر بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔سب نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ اگر یہ الفاظ حکومتی سطح پر واپس نہیں لیے گئے تو ابتدائی طور پر شہروں سے ان تمام ’ساتھیوں‘ کو جنگل واپس بلالیا جائے گا جو اب تک انسانوں کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیتے رہے ہیں۔ کچھ نے تو مثال دی کے ہمارے ایک ساتھی نے مرتے دم تک حکمرانوں سے وفاداری کا ثبوت دیا۔ اگر وہ غیر جانبدار ہوتا تو مالک بدل دیتا۔جیسا کہ انسان کرتے ہیں خاص طور پرسیاست دان۔

دوسری طرف جنگل کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر وزرات داخلہ اور جنگلات نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پہاڑوں اور جنگلات میں دفعہ 144 لگادی ہے اور ڈی چوک جانے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی کا فیصلہ کیا ہے۔

 خلاف ورزی کرنے والے کو گولی مارنے کا حکم ہے جس پر جانوروں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہروں میں ویسے ہی ان کے ساتھیوں کو انسانوں کو کاٹنے کے الزام میں ماورائے عدالت ماردیا جاتا ہے۔ اسلام آباد کی سڑکوں پر آئے دن پائے جانے والے ایک مخصوص جانور کو حکومتی تحویل میں لینے کا فیصلہ ہوا ہے ممکنہ احتجاج کوروکنے کے لیے قریبی ’چڑیا گھر میں نئے پنجرے، بھی تیار کرلیے گئے ہیں۔

اجلاس کے دوران کچھ جانوروں نے پلے کارڈ اور بینر بھی اٹھائے ہوئے تھے جن پر لکھا تھا’’ جانور وفادار ہے، انسان غیر جانبدار ہے‘‘۔ انہوں نےیہ بھی کہا کہ اگر انہیں اچھے برے کی تمیز نہ ہوتی تو وہ مالک کواس کی خوشبو سے کیسے پہچانتے۔ وہ توسونگھ کربتا دیتے ہیں کہ یہ انسان وفادار ہے کہ غدار، اسکی گاڑی میں اسلحہ ہے یا چرس۔ انسان کو تو ممنوعہ اشیا اور ‘’شہد کی بوتل‘ کی بھی پہچان نہیں۔ یہاں تو انسانوں کو وفاداری تبدیل کرنے پر کروڑوں روپے ملتے ہیں اور اگر جانور وفاداری تبدیل کرلے تو اسے بے وفا کہا جاتا ہے۔

آخر میں جنگل میں ہونے والے اجلاس میں جس میں بہت سے جانوروں نے دوسرے شہروں کے چڑیا گھروں سے ویڈیو لنک کے ذریعہ شرکت کی، حکمرانوں کے ان ریمارکس پر احتجاج کو بین الاقوامی سطح تک پھیلانے کا فیصلہ ہوا۔ انہوں نے اپنے غیر ملکی ساتھیوں کے لیے ایک ٹریول وارننگ بھی جاری کی ہے کہ وہ موجودہ صورتحال میں اپنے مالکوں کے ساتھ پاکستان آنے سے پہلے سردار کو مطلع کریں۔ گوکہ جلسے میں دیے گئے ان واضح ریمارکس کے بعد مسلسل وضاحتیں پیش کی جارہی ہیں مگر کچھ ممالک نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

امریکہ نے ایک مراسلے میں واضح کیا ہے کہ ان کے ملک میں دونوں بڑی جماعتوں کے انتخابی نشان جانوروں پر ہیں اور اس طرح کی باتوں کو ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت تصور کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھاکہ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ انسان پھر دغا دے جاتا ہے مگر جانور مالک کی مرضی کے بغیر کسی سے بدتمیزی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔

آخر میں ایک قرارداد کے ذریعہ حکومت اور اپوزیشن سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اپنے معاملات میں ان پر اس طرح کے ریمارکس دینے سے گریز کریں، خاص طور پر ایک ایسے موقع پر جب اسلام آباد میں سیاسی اور انسانی درجہ حرارت اوپر جاتا ہوا نظر آرہا ہے۔ انسانوں کے درمیان حصول اقتدار کے لیے رسہ کشی جاری ہے اور ایک اطلاع کے مطابق تصادم کا بھی خطرہ ہے۔ قرارداد میں اسپیکر قومی اسمبلی سے بھی درخواست کی گئی ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کے وقت ان پر اضافی بوجھ نہ ڈالا جائے۔ 

وہ یہ تو سونگھ کربتا سکتے ہیں کہ کس کی گاڑی میں شہد ہے اور کس میں اسلحہ یا بم مگر وہ کسی ایم این اے کے بارے میں یہ نہیں بتا سکتے کہ وہ ا عتماد والا ہے یا عدم اعتماد والا۔ لہٰذا بہتر ہے کہ اس طرح کے گند سے جانوروں کو دوررکھا جائے یہ وفاداری اور لوٹا کریسی انسانوں کے کام ہیں، ہمارے نہیں۔جاتے جاتے ایک خبر اور بھی دیتا چلوں کہ حکمرانوں کے ان ریمارکس کا انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے بھی نوٹس لے لیا ہے اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ کل تک جو موصوف کرکٹ میں نیوٹرل ایمپائر لانے کا کریڈٹ لیتے تھے اب انہوں نے یہاں بھی یوٹرن لے لیا ہے۔ سنا ہے یہ شکایت آسڑیلیاکے 24 سال بعد پاکستان کی سیریز میں شرکت کے لیے آئے نیوٹرل ایمپائر کے پینل نے کی ہے۔

اس سلسلے میں پیمرا نے بھی یہ ہدایت جاری کی ہے کہ ٹی وی چینل آئندہ کسی کو نیوٹرل کہتے وقت احتیاط سے کام لیں کیونکہ اسے جانور تصور کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ وزارت تعلیم لغت میں لفظ جانبدار اور غیر جانبدار کی نئی تشریح کرنے جارہی ہے۔تاہم جنگل کے سردار نے ایک اپیل میں اپنے تمام ساتھیوں کو متحد رہنے کی اپیل کی ہے اور انسانوں سے اس وقت تک دور رہنے کا کہا ہے جب تک یہ فیصلہ نہیں ہوجاتا کون کس کے ساتھ ہے۔ انہوں نے کہا’’ انسان گھبرائے تو گھبرائے تم نے گھبرانا نہیں‘‘۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)

Comments are closed.