وکلاء بمقابلہ ڈاکٹرز

محمد مبشر انوار

ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے،یہ وہ زریں قول ہے جس کو دہراتے ہم اور ہمارا معاشرہ تھکتے نہیں مگر عملاً ہمارا کردار کیا ہے؟اس کی ایک انتہائی افسوسناک جھلک گذشتہ دنوں دیکھنے میں آئی جب معاشرے کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے اور باشعور طبقے نے لاہور میں امراض قلب کے ہسپتال پر دھاوا بولا.

انتہائی بے رحمی و بے دردی سے صاحب فراش مریضوں کے منہ سے لگے ماسک اتار پھینکے،ان کے لواحقین کے ساتھ انتہائی بد تمیزی کا سلوک کیاگیا،ہسپتال میں بلاوجہ توڑ پھوڑ کرکے اپنی جس ذہنی بلوغت کا ثبوت دیا،وہ انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہے۔

دوسری اہم ترین بات،جو عالمی سطح پر بھی مسلمہ ہے کہ دوران جنگ بھی فوجیں کسی بھی صورت ہسپتال یا اس سے متعلقہ عمارتوں یا ایمبولینس پر حملہ آور نہیں ہو سکتی کہ یہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے،پھر کس طرح معاشرے کے خود ساختہ (چند سو افراد)باشعور افراد نے ہسپتال میں جنگی جنون میں مبتلا ہو کر حملہ آور ہوئے؟

یہاں سینئر وکلاء جناب اعتزاز احسن اور علی ظفر صاحب کو خراج تحسین پیش نہ کرنا زیادتی ہو گی،جنہوں نے کھل کر چند سو وکلاء کے اس اقدام کی بھرپور مذمت کی،گو کہ فی الوقت دیگر وکلاء اس پر کھل کر اظہار یا اس عمل کی مذمت نہیں کر رہے لیکن جلد یا بدیر وکلاء برادری کو یہ احساس ہو جائے گا کہ ان چند سو افراد کا یہ اقدام انتہائی قابل مذمت ہے.

  وکلاء کو ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وکلاء براردی کے یہ چند سو سورما،اس حملے سے قبل بار روم میں جوش آمیز خطابات میں انا کو انگیخت کس نے کیا تھا؟کس نے وکلاء کو انتقام پر اکسایا تھا؟کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ پی آئی سی میں ڈاکٹروں نے وکلاء کی پٹائی کیوں کی؟

کیا یہ حقیقت نہیں کہ وکلاء کی چیرہ دستیاں دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں؟کیا یہ حقیقت نہیں ایسے وکلاء ہر جگہ پر اپنی حیثیت کا ناجائز استعمال کرتے ہیں اور ہر جگہ اپنا استحقاق ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟

موٹر وے پر ٹول ٹیکس نہ دینے کا معاملہ ہو یا ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں بدتمیزی،پولیس کے اہلکاروں سے بار میں معافی منگوانی ہو یا ججز کے چیمبر پر حملے،اعلی عدلیہ کے ججز کے خلاف پرتشدد احتجاج ہو یا ان کو کام کرنے سے روکنا ہو،کون سا معاملہ ہے جہاں وکلاء نے اپنی حیثیت سے تجاوز نہیں کیا.

  اپنی دھونس جمانے کی کوشش نہیں کی۔ ایسے وکلاء حضرات کسی قاعدے قانون کے تابع کم اور قانون کو اپنے تابع کرنے کے خواہشمند نظر آتے ہیں۔

پاکستان قیام کے دوران چند دوستوں سے اس موضوع پر اظہار خیال ہوا تو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اس باوقار پیشے میں ایسے ایسے لوگ وارد ہو چکے ہیں کہ جن کے اسلاف کا تعلق ہی جرائم کی دنیا سے ہے اور انہوں نے اپنی اولادوں کو اس پیشے میں بھیجا ہی اس لئے ہے کہ وہ اپنی ہر غیر قانونی حرکت کو اس پیشے کی آڑ میں چھپا سکیں۔

ایسی سوچ کے تابع،اس پیشے میں شامل ہونے والوں سے کیا توقعات رکھی جا سکتی ہیں؟ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ایسے افراد جیب کے بھی کھلے ہوتے ہیں اور سو پچاس افراد کے لئے کھانے کا انتظام کرنا ان کے لئے معمولی بات ہوتی ہے تو دوسری طرف اپنی اس حیثیت کے بل بوتے پر وہ بار کی سیاست میں بھرپور طریقے سے اثر انداز ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں .

یہی چلن ہمارے معاشرے میں اس وقت رائج ہے۔ اس حقیقت سے تو سب واقف ہیں کہ ایسے مالدار لوگ گذشتہ چند سالوں میں پورے معاشرے پر،ہر شعبہ ہائے زندگی میں بری طرح اثر انداز ہو چکے ہیں اور ہر شعبہ زندگی کو اپنے کنٹرول میں لے چکے ہیں۔

یہاں وزیر اعظم کے بھانجے بیرسٹرحسان خان نیازی کا ذکر غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے،کہ وہ نہ صرف وزیراعظم کے بھانجے ہیں بلکہ مسلم لیگ ن کے سرکردہ رہنما حفیظ اللہ نیازی کے سپوت بھی ہیں،ان کا اس احتجاج میں شریک ہونے سے قبل اور بعد ازاں ٹویٹ اس امر کا غماز ہے کہ جس مقصد کے لئے وہ اس احتجاج میں شریک ہوئے.

یہ جلوس بعد ازاں اس سے ہٹ گیا۔ بہرکیف اس کی جو بھی وجہ ہو،وہ غیر متعلقہ ہے کہ اگر دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ،ابھی تک وزیراعظم کی ترجیحات میں شامل ہے،تو اس حملے میں ملوث کسی بھی کردار کو معافی نہیں ملنی چاہئے،وہ خواہ وزیراعظم کا بھانجا ہو یا مسلم لیگ ن کے سرکردہ رہنما کا بیٹا۔ 

اس حملے کی بنیادی وجہ بھی در حقیقت(جو مختلف ویڈیو کلپ دیکھ کر سمجھ آئی)یہی تھی کہ وکلاء حضرات ہی تھے جنہوں نے پہلے پی آئی سی میں حسب روایت ڈاکٹرز کے ساتھ بدتمیزی کی،جس کے جواب میں ینگ ڈاکٹرز نے ان وکلاء کی ٹھیک ٹھاک ٹھکائی کی۔

اصولاً ڈاکٹرز کا یہ رویہ بھی کسی طور قابل ستائش ہرگز نہیں مگر ینگ ڈاکٹرز کے اوقات کار پر اگر نظر دوڑائیں تو بے اختیار دل سے یہی بات نکلتی ہے کہ ہے تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات،جس مسلسل محنت اورلگن سے ینگ ڈاکٹرز اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں،وہ قابل تعریف ہے۔

ایسا نہیں کہ سارے ینگ ڈاکٹرز ہی فرشتہ سیرت ہیں یا سب ہی اپنے کام میں مخلص ہیں،کالی بھیڑیں یقینا اس پیشے سے بھی وابستہ ہیں مگر ینگ ڈاکٹرز کی اکثریت اپنے پیشے سے مخلص ہوتی ہے۔ دوسری تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ جیسے جیسے ڈاکٹرز بھی سینئر ہوتے چلے جاتے ہیں،اپنے کام میں مہارت انہیں حاصل ہوتی جاتی ہے،ویسے ویسے ان کے انداز بھی بدلتے جاتے ہیں.

ان مسیحائی کی جگہ وہاں بھی قصاب پن کا عنصرزیادہ ہوتا جاتا ہے لیکن اس میں قصوروار کسے ٹھہرایا جائے؟ افراد کو پیشے کو یا اس بدبو دارنظام کو جس کی کوئی بھی کل سیدھی نہیں،جس جگہ ہاتھ رکھیں،اپنی تمام تر ذلالت کے ساتھ اس نظام کا تعفن سانسوں کو متعفن کر دیتا ہے۔

صوبائی وزیر داخلہ،وسیم اکرم پلس کہیں یا شیر شاہ سوری کہیں یا سردار عثمان بزدار کہیں،کہ گلاب کو کسی اورنام سے بھی پکاریں تو اس کی خوشبو وہی رہتی ہے،حسب روایت کہیں سوئے رہےؒفیاض الحسن چوہان لاکھ کہیں کہ وہ اسلام آباد میں اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف تھے.

حقیقت یہ ہے کہ سردار عثمان بزدار اپنے فرائض ادا کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ کئی ہفتوں سے چل رہی اس کشمکش کا کوئی بھی مناسب سد باب حکومت نہ کر سکی اور اپنے اناڑی پن کا واضح ثبوت دیا۔

ضلعی انتظامیہ کیا اتنی کمزور ہے یا وکلاء کے سامنے واقعی بے بس ہے یا صوبائی حکومت نے اس کو روک رکھا ہے کہ وہ اس حملے کو قبل ازوقت سمجھ نہ سکی،اس کا اندازہ نہ لگا سکی یا اس کی توقع ہی نہ کرسکی یا یہ واقعتاً وکلاء کے بقول ڈاکٹرز کی اشتعال انگیزی کے باعث موقع پر ہو گیا؟

افسوس صد افسوس! معاشرے کے دو ایسے شعبہ ہائے زندگی،جن کو کل تک انتہائی عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا،جن کی تعظیم و تکریم واقعتاً دل سے کی جاتی تھی،آپس میں یوں دست و گریبان ہوئے کہ ایک طرف ساری دنیا کو یہ بتلا دیا کہ ہم انا و جنون میں کسی جنگی جرم کو کرنے سے بھی نہیں چوکتے.

دوسری طرف نہ صرف اپنی تعلیم و تربیت کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑا بلکہ اپنے اساتذہ،اپنے تعلیمی اداروں اور اپنے ان سینئرز کا وقار بھی ملیا میٹ کر دیا،جن سے انہوں نے تعلیم حاصل کی یا جن کے ساتھ عملی تجربہ حاصل کیا۔

تکریم و تعظیم کا بنیادی پیمانہ ساری دنیا میں کردار پر منحصر ہوتا ہے،بلیک اینڈ وائٹ کوٹ کی اس لڑائی نے دونوں کی رہی سہی تعظیم بھی ختم کر دی۔

Comments are closed.