آف دی ریکارڈ

شمشاد مانگٹ

محترمہ بے نظیر بھٹو کے سابق صدرجنرل پرویز مشرف سے تمام معاملات طے پا چکے تھے اور کونڈولیزا رائس نے امریکی ثالث کے طورپر دونوں کے درمیان پاور شیئرنگ فارمولا طے کیا تھا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو 2007 کے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کیلئے لندن میں نام فائنل کررہی تھیں کہ اسی دوران محترمہ ناہید خان نے ان کے کان میں سرگوشی کی اور محترمہ بے نظیر بھٹو اچانک اٹھ کر چلی گئیں ۔ سب کو یہ تو علم تھا کہ کوئی اہم بات ہے جس کی وجہ سے محترمہ سب کچھ چھوڑ کر چلی گئی ہیں لیکن یہ کسی کو علم نہیں تھاکہ محترمہ کون سی اہم بات کیلئے ٹکٹ تقسیم کی کارروائی چھوڑ کر گئی ہیں ۔

اسی شام ٹی وی چینلز بریکنگ نیوز دے رہے تھے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان ابو ظہبی میں ملاقات ہوئی ہے اور مستقبل کے اقتدار بارے خاکہ تیار کرلیاگیا ہے ۔ مگر اگلے ہی روز محترمہ بے نظیر بھٹو نے لندن پہنچ کر پارٹی ٹکٹ تقسیم کی کارروائی کا آغاز کرنے سے پہلے میڈیا کو بتایا کہ جنرل پرویز مشرف سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی حالانکہ بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ یہ ملاقات ہوئی تھی ۔

اسی طرح 2002 میں جب جنرل پرویز مشرف مخدوم امین فہیم کو وزیراعظم بنانے کے خواہش مند تھے اوردونوں کے درمیان دامن کوہ کے پرفضا مقام پر معاملات بھی طے ہوئے اور ہمارے سینئر دوست اور تازہ تازہ اینکر پرسن سجاد ترین نے یہ خبر بریک کی تھی مگر حکومت اور پیپلز پارٹی نے وقتی طورپر تردید کی لیکن بعد میں مان بھی لیا اس کے علاوہ میاں نواز شریف میاں شہباز شریف ، محترمہ مریم نواز اور وزیراعظم عمران خان قوم سے ایسے درجنوں واقعات جھوٹ بول کر چھپا چکے ہیں۔ یعنی جھوٹ ہمارے سیاستدانوں کی گھٹی میں شامل ہوتا ہے ۔

ہمارے سیاستدانوں کا اپنی بات مخالف فریق تک پہنچانے کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ وہ چند صحافی دوستوں کو بلا کر راز ونیاز کی باتیں کرتے ہیں اور اٹھتے وقت یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ ساری گفتگو آف دی ریکارڈ تھی اس جملے کا واضح مطلب ہوتا ہے کہ اگر کسی نے یہ رازدارانہ باتیں شائع کرنی ہیں تو باخبر ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے شائع کرسکتا ہے اور گفتگو کرنے والے کا نام لینا حرام قرار دے دیاجاتا ہے اس ” طریقہ واردات “ سے سانپ بھی مر جاتا ہے اور لاٹھی کی بھی بچت ہوتی ہے اور بعد ازاں یہ لاٹھی پرائی بھینس کو اپنا بنانے کے کام بھی آتی ہے ۔

سیاستدانوں کے ایجاد کردہ اس ” نسخہ کیمیا“ کا استعمال چند ماہ پہلے چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے بھی کیا تھا ۔ چیئرمین نیب نے ایک اینکر کو بلا کر شہباز شریف ، نواز شریف ، مریم نواز ، پرویز خٹک سمیت دیگر اہم ترین کیسوں پربریفنگ دینے کے بعد رسمی جملہ بھی بول دیاتھا کہ یہ ساری باتیں آف دی ریکارڈ ہیں چنانچہ مذکورہ اینکر نے سب کچھ اپنے کالم میں جھونک دیا اس طرح تمام سیاستدانوں کو پیغام پہنچا دیا گیا اور پھر نیب کی طرف سے ایک تردیدی بیان میں کہا گیا کہ اینکر نے گفتگو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا اس کے بعد نہ کسی ادارے نے اس ملاقات کے ” سیاق “ ڈھونڈنے کی کوشش کی اور نہ ہی ”سباق “ حاصل کرنے والوں کا پتہ لگایا گیا ۔

اسی نسخے کا استعمال منگل 17 دسمبر کو ریٹائرمنٹ کے ” دھانے “ پر کھڑے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی استعمال کیا سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن کے عہدیداروں اور ممبران کو چائے پر بلا کر ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس نے انتہائی سیکرٹ رازوں سے پردہ اٹھایا ۔ اس غیر رسمی آف دی ریکارڈ ” پریس کانفرنس “ میں شریک ہمارے رپورٹر توصیف عباسی نے بتایا کہ محترم چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے انکشاف کیا ہے کہ مجھے کئی بار ” بھائی لوگوں “ نے اپروچ کیا اور میں نے دباﺅ میں آنے سے انکار کیا ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں نے کبھی بھی شریف برادران کو گاڈ فادر نہیں کہا اور یہ کہ سسلین مافیا کے الفاظ جسٹس عظمت سعید نے ایک دوسرے کیس میں ادا کئے تھے ۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پریس ممبران کوبتایا کہ آرمی چیف کے توسیعی معاملے پر میں ازخود نوٹس لینا نہیں چاہتا تھا لیکن جب درخواست آئی تو سماعت کیلئے مقرر کرنے سے پہلے اٹارنی جنرل سے رائے طلب کی تو وہ مجھے مطمئن نہ کرسکے جس پر درخواست کوکھلی عدالت میں لگانے کا حکم دیا ۔چیف جسٹس کھوسہ نے رپورٹروں کو آف دی ریکارڈ یہ بھی بتایا کہ سابق جنرل پرویز مشرف کا کیس بالکل واضح تھا اور اس میں مزید تاخیر کیلئے حربے استعمال کئے جارہے تھے اگر ہم جلدی نہ کرتے تو یہ معاملہ کئی سال تک چلتا رہتا تاخیری حربوں کے باوجود معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا ۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے ججوں کے ٹیلی فون ٹیپ ہونے کی بات بھی کی اور یہ بھی کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے میرے ساتھ کی گئی بات لیک کرکے میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کئی بار احساس دلایا کہ یہ گفتگو آف دی ریکارڈ ہے چنانچہ حسب معمول کچھ دوستوں نے باخبر ذرائع کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے یہ گفتگو میڈیا پرجاری کی اور پھر پیغام کو مطلوبہ ٹارگٹ تک پہنچا دیا گیا چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کی طرف سے حسب معمول اس کی تردید جاری کی گئی ۔

خصوصی عدالت کے تین رکنی بینچ نے جو تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے وہ چیف جسٹس آف پاکستان کے رپورٹروں سے کہے ہوئے کلمات کا عکس ہے جس طرح افواج پاکستان کی طرف سے عدالت کے فیصلے پر شدید غم وغصے کا اظہارکیا گیا تھا بالکل عین اسی طرح تفصیلی فیصلہ بھی بول رہا ہے یہ الگ بات ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے ہوئے یا نہیں لیکن دونوں اداروں کی طرف سے جنگ کے تمام تقاضے پورے کردیئے گئے ہیں ۔ افواج پاکستان کیلئے اب مشکل صورتحال یہ ہے کہ اسے فیصلہ کرنا ہے کہ اسے اندرونی محاذ پر لڑنا ہے یا بیرونی محاذ پر دشمن کے وار روکنا ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ فیصلہ خصوصی عدالت نے کیا ہے اور دفاع چیف جسٹس آف پاکستان کررہے ہیں یعنی جنرل پرویز مشرف کے پاس اپیل کا حق پہلے ہی مشکوک ہے .

پاکستان جیسے ملک میں اداروں میں لڑائی ہمیشہ جاری رہتی ہے کبھی کبھی جزوقتی ” سیز فائر“ کی پوزیشن ضرور آتی ہے لیکن تمام فریقین تھوڑا آرام کرکے پھر نبرد آزما ہو جاتے ہیں اس لڑائی میں اب یہ بھی سمجھ نہیں آرہی کہ کون کس ” پیج “ پر ہے ؟ اس وقت حکومت ، اپوزیشن ، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سمیت میڈیا اور عوام بھی پریشانی سے دو چار ہیں ۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تقریباً ایک سال تک منصف اعلیٰ کے طور پر جھوٹے گواہوں کا تعاقب کیا اور اپنی ریٹائرمنٹ سے دو دن پہلے خود بھی ایک جھوٹی پریس ریلیز جاری کرا کر اپنے دامن پر جھوٹ کے چھینٹے لگوادیئے ۔ اداروں کے درمیان ہونے والے تصادم سے ماضی میں بہت نقصان ہوا اور اب بھی فائدہ ممکن نہیں ہے کبھی آئین بچانے کے نام پر اور کبھی آئین پامال کرنے کے باعث ملک کی جڑیں کھوکھلی ہوئیں ۔ یہ امر مسلمہ ہے کہ طاقتور لوگوں کی لڑائی میں راہگیر بے قصور مارے جاتے ہیں اور سانڈھوں کی لڑائی میں فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں اس لئے عوام اپنا اور فصلوں کا خیال رکھتے ہوئے کھیتوں میں رہیں یا گھروں میں مقید ہوجائیں جب تک حالات معمول پر نہ آجائیں ۔

Comments are closed.