سائفر کیس ,چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر ان کیمرا کارروائی کے لیے درخواست پر فیصلہ محفوظ

50 / 100

فائل:فوٹو

اسلام آباداسلام آبا: ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس میں درخواست ضمانت پر ان کیمرا کارروائی کے لیے ایف آئی اے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کیس کی اوپن کورٹ میں سماعت سے حساس معلومات پبلک ہونے کا اندیشہ ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت اور ایف آئی اے کی ضمانت پر ان کیمرا پروسیڈنگ کی درخواست کو یکجا کر کے سماعت کی۔ ایف آئی اے کے سپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل اِن کیمرہ ہو رہا ہے۔

درخواست ضمانت پر سماعت بھی اِن کیمرہ کی جا سکتی ہے۔ کچھ بیانات اور کچھ مواد ایسا ہے جسے پبلک میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا عدالت درخواست ضمانت پر فیصلہ لکھے گی تو وہ پبلک ہو گا۔ جب فیصلہ پبلک ہو گا تو پھر سماعت اِن کیمرہ کیوں کی جائے؟۔

عدالت نے کہا سائفر سے متعلق کوئی کوڈ آف کنڈکٹ یا ایس او پی ہے تو بتا دیں۔پراسیکیوٹر نے بتایا کہ بیرون ممالک پاکستان کے سفارت خانوں سے کوڈڈ سائفر بھیجے جاتے ہیں،ای میل یا فیکس کے ذریعے کوڈڈ فارم میں آتا ہے۔ سائفر ایک خفیہ دستاویز ہے جسے ہر صورت خفیہ رکھا جاتا ہے۔ دفتر خارجہ میں سائفر کو ڈی کوڈ کیا جاتا ہے۔ صدر، وزیراعظم، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو سائفر کاپی بھیجی جاتی ہے۔ سائفر نے تمام جگہوں سے ہو کر واپس دفتر خارجہ آنا ہوتا ہے۔ دفتر خارجہ میں پہنچنے پر ڈی کوڈ کئے گئے سائفر کو ختم کر دیا جاتا ہے۔صرف اصل سائفر دفتر خارجہ میں موجود رہتا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے بتایا کہ کوڈڈ پیغام ہر ملک کا الگ ہوتا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے درخواست ضمانت پر ان کیمرا کارروائی کی مخالفت کی اور کہا ایف آئی اے کی درخواست ہے کہ سماعت اِن کیمرہ کریں کیونکہ کچھ پبلک نہ ہو۔اگر سائفر پہلے پبلک ہو چکا تو پراسیکیوشن اب کس چیز کو پبلک نہیں ہونے دینا چاہتی۔عوام کو علم ہے کہ یہ کیا کیس ہے۔ٹرائل کورٹ میں چالان جمع ہو چکا، کاپیاں فراہم ہو چکی ہیں،اب یہ اس مرحلے پر ان کیمرا کارروائی کی درخواست دے رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا میں نے 9 سالوں میں کسی کیس کی اِن کیمرہ سماعت نہیں کی، ایک آدھ دفعہ مسنگ پرسنز کیس میں اِن کیمرہ سماعت کی ہو گی۔ کیا آج کل کے زمانے میں اوپن کورٹ کے تصور کے خلاف کوئی اقدام مناسب ہو گا؟ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا ہمارے تو سارے لوگ آج تیار ہوکر آئے تھے کہ آج عدالتی کارروائی براہ راست دکھائی جائے گی،یہاں سرکاری وکلا کہہ رہے ہیں کہ سماعت کو ان کیمرہ کردیں،پبلک کو کچھ پتہ نہ چلے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لائیو سٹریمنگ ضرور ہو گی۔ہم نے یہ معاملہ فْل کورٹ کے سامنے رکھا ہے، ابھی اس پر کمیٹی کام کررہی ہے۔ بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا۔اگر کوئی حساس بات ہو تو وہ اِن چیمبر بھی کی جا سکتی ہے۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔

Comments are closed.