بدقسمتی ہے پشاور کے دردناک سانحہ پر بھی سیاست کی جا رہی ہے، عمران خان

52 / 100

لاہور: چئیرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ بدقسمتی ہے پشاور کے دردناک سانحہ پر بھی سیاست کی جا رہی ہے، عمران خان نے سوال کیا ہمیں ذمہ دار ٹھہرانے والے بتائیں کہ ہمارے دور میں دہشت گردی کے واقعات کیوں نہیں ہوئے؟

سابق وزیراعظم عمران خان نے ویڈیو لنک پر خطاب میں چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا پولیس نے بہت زیادہ قربانیاں دیں، افسوس اتنا بڑا سانحہ ہوا اورسیاست کی جارہی ہے، قوم کو بتانا چاہتا ہوں یہاں تک پہنچے کیسے، چند ماہ سے پھر سے دہشت گردی شروع ہو گئی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ افغان جہاد کے بعد سب کو پتہ تھا ردعمل آنا ہے، مشرف نے 2003ء میں قبائلی علاقوں میں پہلی دفعہ فوج بھیجی، قبائلی علاقے پرامن علاقے تھے، جب قبائلی علاقوں میں فوج بھیجی تو مسائل شروع ہو گئے، فوج بھیجنے پرقبائلی علاقوں میں بڑا غصہ تھا.

انھوں نے کہا کہ پشتونوں نے 2002ء کے الیکشن میں ایم ایم اے کو ووٹ دے کر بتا دیا وہ جنگ کےخلاف ہیں، جیسے جیسے ہم امریکہ کی جنگ میں شامل ہوتے گئے تو آہستہ آہستہ پاکستان میں دہشت گردی بڑھتی گئی، جب میں دہشت گردی کیخلاف جنگ میں آواز اٹھاتا تو مجھے طالبان خان کہا جاتا، ڈرون حملوں کے خلاف واحد میں تھا جس نے آواز بلند کی تھی باقی تو ڈرتےتھے.

عمران خان نے کہا کہ 2004ء سے آہستہ آہستہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے بھی شروع ہو گئے، ڈرون حملوں کا شکار ہونے والے پولیس والوں سے بدلہ لیتے تھے، جب ہم نے خیبرپختونخوا میں اقتدار سنبھالا تو پولیس ریفارمز کی اور پولیس کی ٹریننگز کرائیں۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ 2021ء میں جب امریکا نےافغانستان سےانخلا کا اعلان کیا توہمیں خانہ جنگی کا خوف تھا، خوف تھا جب افغانستان میں خانہ جنگی ہو گی تو پاکستان پر بھی اثرات پڑیں گے، جنرل (ر) باجوہ سے اچھے اچھے کاموں پر ایک پیج پر تھے، ایکسٹینشن کے بعد جنرل (ر) باجوہ سے اختلاف شروع ہوا.

عمران خان نے کہا کہ جنرل (ر) باجوہ نے کہا ان کو این آر او دے دو جس پر میں نے انکار کر دیا تھا، دوسرا اختلاف باجوہ سے جنرل (ر) فیض کی وجہ سے ہوا، میں چاہتا تھا افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے دوران بیسٹ کھلاڑی جنرل فیض کو ہونا چاہیے تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ صدر اشرف غنی بھاگ گیا اور طالبان نے کنٹرول سنبھال لیا، اگر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو جاتی تو سب سے زیادہ پاکستان کو نقصان ہوتا، پاکستان کے اس وقت افغانستان کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات تھے، افغانستان کے ساتھ ڈھائی ہزارکلومیٹر تک ہمارا بارڈر ہے.

چئیرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش تھی افغانستان میں استحکام آجائے، ہم نےدوحہ میں ڈائیلاگ کرائے تاکہ افغانستان میں استحکام آئے، اس کے بعد بدقسمتی سے رجیم چینج سے ہماری حکومت کو ہٹا دیا گیا، اس وقت جنرل باجوہ سے کہا اس وقت افغانستان حکومت پاکستان کی اینٹی نہیں ہے۔

عمران خان نے کہا کہ جب ان کی حکومت آئی تو ان کو کسی چیز کی سمجھ نہیں تھی، پشاور مسجد دھماکہ، شواہد آنے سے پہلے ہی گورنر نے الیکشن میں تاخیر کا خط لکھ دیا، گورنر نے کہہ دیا کہ الیکشن میں تاخیر کی جائے، لوگوں کو تو پہلے ہی اس حوالے سےخدشات تھے۔

انہوں نے کہا کہ آج جو ہمیں ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں ان سے پوچھتا ہوں ہماری حکومت میں دہشت گردی کے واقعات کیوں نہیں ہوئے؟ مارچ، اپریل تک بتایا جائے کے پی کے میں کتنی دہشت گردی تھی؟، آج پاکستان میں معاشی تباہی آگئی ہے، ہم تب تک ذمہ دار ہیں جب تک ہماری حکومت تھی، مجھے ان کی نااہلی اور کرپشن کا پتہ تھا، انہوں نے ہی ملک کو اس نہج تک پہنچایا ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ بار بار جنرل باجوہ کو کہتا رہا، ان لوگوں کو 30 سال سے جانتا ہوں، انہیں کامیاب نہ ہونے دیں یہ ملک نہیں سنبھال سکیں گے، انہی لوگوں نے تو ملک کو تباہی پر پہنچایا تو ٹھیک کیسے کر سکتے ہیں؟

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اکنامک سروے کےمطابق 17 سال بعد ہماری حکومت میں معیشت میں گروتھ ہو رہی تھی، کونسی تبدیلی آئی کہ معیشت تباہ اور دہشت گردی بھی انتہا کو پہنچ گئی؟ آج تو عالمی سطح پر پٹرول کی قیمتیں بھی کم ہیں، ہمارے دور میں عالمی سطح پر پٹرول کی قیمتیں بڑھنے کے باوجود گروتھ ہو رہی تھی.

Comments are closed.