صادق وآمین کا اعلیٰ پیمانہ منتخب نمائندوں کے سوا کسی آفس ہولڈر کے لیے موجود نہیں۔ چیف جسٹس

50 / 100

فائل:فوٹو

اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے نااہلی کی درخواستوں سے متعلق کیس میں تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، جس میں قرار دیا گیا ہے کہ نااہلی کے فیصلے میں غلطی کے نقصان کا مداوا نہیں ہو سکتا۔

آصف زرداری، فواد چودھری کی نااہلی کی درخواستیں مسترد ہونے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا، جس میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ بطور جج منتخب نمائندوں پر بالادستی کا دعویٰ نہیں۔

صادق وآمین کا اعلیٰ پیمانہ منتخب نمائندوں کے سوا کسی آفس ہولڈر کے لیے موجود نہیں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا یہ پیمانہ ان غیر منتخب لوگوں کے لیے بھی نہیں جن کی حکومت میں اس ملک کی آدھی عمر گزری۔

عدالت نے تفصیلی فیصلے میں قرار دیا کہ 62 ون ایف کے تحت نااہلی کے اثرات گہرے ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ نمائندوں کی خود احتسابی کا اپنا میکنزم بنا سکتی ہے۔ فواد چودھری اور آصف زرداری کسی کورٹ آف لا کے سزا یافتہ نہیں۔ دونوں عوامی نمائندوں کی نااہلی متنازع حقائق پر مانگی گئی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ متنازع حقائق کا تعین کرنے کے لئے تحقیقات کی ضرورت ہوتی ہے اور تحقیقات کے دوران دونوں نمائندوں کے سیاسی مخالفین فائدہ اٹھائیں گے۔تحقیقات کے بعد دونوں اہل بھی قرار پائیں تو وہ ان کو ہوئے نقصان کا مداوا نہیں۔ عدالتوں کے ایسی تحقیقات میں پڑنے سے عوام کا منتخب نمائندوں پر اعتبار کم ہوتا ہے اور عدالتوں کے ان معاملات میں پڑنے سے عام سائلین کا وقت بھی ضائع ہوتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ خواجہ آصف کو اسی عدالت نے نااہل قرار دیا تھا۔ 7 ماہ بعد سپریم کورٹ نے ان کی اپیل منظور کر لی۔ اس دوران خواجہ آصف کے حلقے کے عوام نمائندگی سے محروم رہے۔ یقیناً اس دوران خواجہ آصف کو سیاسی نقصان اور بدنامی کا سامنا بھی رہا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے قرار دیا کہ عوام ہی کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ فیصلہ کریں ان کی نمائندگی کون کرے گا۔ اکیلے عوام ہی طے کر سکتے ہیں کون صادق اور امین ہے۔ نااہلی کا فیصلہ دینے میں کسی بھی غلطی سے ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔

Comments are closed.