ہیرو،ولن یا شعبدہ باز…؟

50 / 100

سینئر صحافی ارشد شریف کی شہادت کے بعدپوری قوم،ادارے اور تمام سیاسی جماعتیں غم و رنج کے عالم میں ڈوبی ہوئی تھیں کہ ایسے میں پی ٹی آئی کے سینئر سیاستدان فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس نے بے تحاشہ نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔لوگ اس شش و پنج میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ فیصل واوڈا کے پاس واقعی کوئی ثبوت موجود ہیں یا انہوں نے یہ سب باتیں ارشد شریف شہید کی موت پر سیاست چمکانے کیلئے ہی کی ہیں.

جیسا کہ دوسری جماعتوں نے بھی شروع میں کوشش کی تھی مگر پھر شاید خوف خدا سے رک گئیں۔ ارشد شریف شہید کی موت کی جو بھی وجوہات تھیں، سچ اور جھوٹ کیا ہے؟ اس کا اندازہ میں یا کوئی بھی تجزیہ کار نہیں لگا سکتانہ ہی کوئی سیاستدان یا ان کا قریبی دوست اپنے تجزیے کی بنیاد پر حقائق کو تبدیل کر سکتا ہے۔ جو بھی حقائق ہیں وہ قائم شدہ کمیٹی انشاء اللہ جلد عوام کے سامنے لے آئے گی۔

فیصل وواڈا نے اپنی پریس کانفرنس میں اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا کہ کچھ افراد کی جان کو خطرہ ہے۔ مگر انہوں نے صحافیوں کے بے تحاشہ اصرار کرنے کے باوجود کسی کا نام بتانے سے گریز کیا۔ ایک جانب فیصل واوڈا نے اپنی نااہلی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے دوسری جانب انہوں نے پریس کانفرنس کر کے تحقیقات کا رخ مزید نئے پہلووں کی جانب موڑ دیا ہے۔

پی ٹی آئی نے فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس والی حرکت کو لانگ مارچ سبوتاژ کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ انہیں تحریک انصاف کی جانب سے شو کاز نوٹس بھی جاری کیا گیا ہے جس میں ان کی پارٹی رکنیت بھی معطل کر دی گئی ہے۔پی ٹی آئی کے رہنماوں میں پھوٹ پڑنے کی بھی باز گشت ہے۔

بعض پی ٹی آئی رہنماوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ماضی میں فوجی بوٹ لا کر تنقید کرنے والے آج خود بوٹ پالش کرنے نکل پڑے ہیں۔ جب کہ مسلم لیگ ن کے وفاقی وزیر داخلہ نے اس عمل پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے واضع کیا ہے کہ فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس سے پتہ چل گیا ہے کہ ارشد شریف کو کینیابھیجنے والے کون لوگ تھے۔سارے تانے بانے عمران خان سے ملتے ہیں۔

یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ فیصل واوڈا کا شمار کراچی کی مشہور کاروباری شخصیات میں سے ہو تا ہے۔ و ہ متعدد کاروبارکررہے ہیں جن میں بیرون ملک سے مہنگی گاڑٰیوں کی درآمد کا کاروبار بھی شامل ہے اور ان کو خود بھی مہنگی گاڑیاں اور ہیوی بائیک چلانے کا شوق ہے۔ انہوں نے تحریک انصاف کو 2011میں جوائن کیا۔ امریکی شہریت ہونے کی وجہ سے ان کا امریکہ آنا جانا لگا رہتا تھا۔

جب 2018میں کراچی میں چینی قونصلیٹ کے باہر دہشت گردی کا واقعہ ہوا۔ فیصل واوڈا بلٹ پروف جیکٹ پہن کر ہاتھ میں پستول لئے سیکیورٹی فورسز کیساتھ متاثرہ علاقے میں گھومتے پھرتے ہوئے دکھائی دیئے۔جس کے بعد ان پر کافی تنقید ہوئی تھی۔ دوسری بار فیصل وواڈا نے ہیرو کے طور پر انٹری تب ماری جب فروری 2019میں پاک فضائیہ نے بھارتی طیارہ مار گرایا اور بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کر لیا۔

تب بھی فیصل واوڈا پستول لے کراس جگہ پہنچ گئے تھے جہاں بھارتی جہاز کا ملبہ پڑا ہوا تھا۔ تیسری بار فیصل واوڈا کو سوشل میڈیا پر ایک بار پھر اس وقت سخت تنقید کا نشانہ بنا یا گیا جب وہ ایک ٹاک شو میں فوجی بوٹ لے کر پہنچ گئے اور اس کو سامنے رکھ کر اپوزیشن جماعتوں پر تنقید کرنے لگے۔

انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ شاید ن لیگ کی حکومت اور فوج ملے ہو ئے ہیں اور فوج کی سیاست میں مداخلت موجود ہے۔ پیمرا نے بھی اس ٹاک شو پر ہونے والی حرکت کے نتیجے میں شو کو کچھ عرضے کیلئے بند کر دیا تھا۔ اب صحافی ارشد شریف کی وفات کے بعد تہلکہ انگیز پریس کانفرنس میں انہوں نے ادھوری باتیں کر کے کہانی کو ایک بار پھر دلچسپ مرحلے میں داخل کر دیا ہے۔

عوام کی نظریں اس انتظار میں لگی بیٹھی ہیں کہ آخر کونسے عوامل ارشد کے قتل کے پیچھے پوشیدہ ہیں۔ اس سارے منظر نامے میں فیصل واوڈا کا کردار ہیرو جیسا تھا یا ولن جیسا تھا یہ سمجھنا آسان نہیں۔ مگر اب بعض مبصرین کہنے لگے ہیں شاید فیصل واوڈا بھی ایک روایتی سیاستدان کی طرح سیاسی شعبدہ بازہی ہیں، اب یہ فیصلہ کون کرے. ہیرو،ولن یا شعبدہ باز…؟

Comments are closed.