قاسم سوری کااستعفے منظوری کا نوٹیفیکیشن غیر آئینی قرار، پی ٹی آئی کی درخواست خارج

50 / 100

فائل:فوٹو

اسلام آباد: تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کے استعفوں کی مرحلہ وار منظوری کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کا نوٹیفکیشن غیر آئینی ہے۔

کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ اس کیس میں تو ہمارا فیصلہ موجود ہے۔ ہم نے لکھا تھا کہ سیاسی کیسز میں ہم مداخلت نہیں کریں گے۔ہم نے فیصلے میں لکھا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی ہی یہ کرے گا، عدالت کچھ نہیں کر سکتی۔

پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چودھری عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور اپنے دلائل میں کہا کہ آپ نے کبھی پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کی، ہم بھی پارلیمنٹ کا احترام کرتے ہیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ یہ مرحلہ وار استعفے منظور کریں۔ اگر کرنے ہیں تو 123 اکٹھے منظور کریں۔

عدالت نے کہا کہ اس وقت آپ کے 34 ممبران تھے جنہوں نے استعفے دیے تھے۔ ہم نے اپنے فیصلے میں بتایا تھا کہ اگر کوئی منتخب نمائندہ استعفیٰ دے تو منظوری کا پراسس کیا ہو گا۔

وکیل فیصل چودھری نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر اس وقت بطور قائم مقام اسپیکر کام کر رہا تھا جس نے 123 استعفے منظور کیے۔ اس کے خلاف کسی ایک ممبر نے بھی اس کو چیلنج بھی نہیں کیا۔

فیصل چودھری نے کہا کہ پی ٹی آئی کے 123 ارکان اسمبلی نے استعفے دیے صرف 11 کے منظور کیے گئے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اسپیکر کو ہدایت نہیں دیں گے۔

ڈپٹی اسپیکر نے جو کیا یا تو وہ ہر ممبر کو بلاتے اور ان کے استعفے منظور کرتے۔ ڈپٹی اسپیکر نے استعفے منظور کرنے کے اصول پر عمل نہیں کیا۔ ڈپٹی اسپیکر ایک ایک رکن کو بلاتے، الگ بٹھا کر پوچھتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت کا استعفوں کی منظوری سے متعلق فیصلہ موجود ہے۔ آپ اسپیکر کے سامنے یہ فیصلہ رکھیں کہ ہمارا استعفیٰ ایسے منظور کریں۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ وہ اقلیت کے بنائے اسپیکر ہیں، ہم ان کے پاس نہیں جاتے۔

عدالت نے کہا کہ اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کر کے پارلیمنٹ کو عزت دینے کی ضرورت ہے۔اسپیکر نے 11 ارکان کے استعفے اپنی تسلی کر کے ہی قبول کیے ہوں گے۔ اسپیکر کے اس اطمینان کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

عدالت نے کہا کہ پارٹی سے کہیں ایک ایک رکن کو اسپیکر کے پاس بھیجیں۔ اپنے ارکان کو اسپیکر کے پاس بھیجنے میں تو ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے، جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمیں ہچکچاہٹ ہے تو ہی عدالت میں آئے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آئین اور عدالتی فیصلے کے برخلاف ڈپٹی اسپیکر اجتماعی طور پر استعفے قبول نہیں کر سکتا تھا۔ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے ڈپٹی اسپیکر نے استعفوں کی اجتماعی منظوری طے شدہ طریقے کے مطابق نہیں کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب تک اسمبلی اراکین کے استعفے قبول نہ ہو جائیں کیا ان کی ڈیوٹی نہیں کہ لوگوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کریں؟ استعفی دینے والا ہر رکن انفرادی طور پر اسپیکر کے سامنے پیش ہو کر استعفے کی تصدیق کرے۔

یہ بھی کہا کہ ارکان اسمبلی اکیلے نہیں وہ نمائندہ ہیں اپنے حلقے کے تمام عوام کے۔ سب پابند ہیں آئین اور قانون پر عمل کرنے کے۔

وکیل پی ٹی آئی نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کے استعفے منظور کرچکے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کااستعفے منظوری کا نوٹیفیکیشن غیر آئینی قرار، پی ٹی آئی کی درخواست خارج ۔ عدالت نے پی ٹی آئی وکیل کی کیس کو لارجر بینچ کے سامنے رکھنے کی استدعا کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ لارجر بنچ بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کرانے ہیں تو پورے123حلقوں میں کروائیں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کو پتہ ہے الیکشن میں کتناخرچ آتاہے؟ عوام اپنے نمائندے 5 سال کے لئے منتخب کرتے ہیں۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ جب دل کیااستعفیٰ دیا پھرالیکشن لڑلیا۔

عدالت نے مرحلہ وار استعفوں کی منظوری کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست مستردکرتے ہوئے خارج کردی۔

Comments are closed.