ریاست امب دربند ، خطہ تناول کی داستان

ترجمہ : صفدرحسین

(یہ سطور ریاست امب دربند اور تناول کے تاریخی حوالوں پر مشتمل جہانداد خان کی دستاویزفلم سے مرتب کی گئی معلومات پر مشتمل ہیں)

تقسیم ہند کے وقت پاکستان میں شامل ہونے والی زیادہ تر ریاستیں اس وقت وجود میں آئیں جب ہندوستان پر مغل حکمرانوں کی گرفت کمزور ہوگئی جس کے نتیجے میں بہت سی ریاستیں اور راجواڑے قائم ہوگئے۔انہی ریاستوں میں سے ایک ریاست ”امب دربند“بھی ہے جسے موجود خیبرپختونخواہ کی سب سے قدیم آزاد ریاست ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔70کی دہائی میں قائم ہونے والے تربیلاڈیم جھیل کے دامن میں روپوش ہوجانے والی اس ریاست کی بنیاد اٹھارہویں صدی کے نصف میں پڑی جب افغان بادشاہ احمد شاہ ابدالی نے تنولی قبیلے کے ایک بہادر اور بیدار مغز سردار زبردست خان تنولی کو صوبہ خان کا لقب دیتے ہوئے دریائے سندھ کے ساتھ جڑا پورا علاقہ ان کی عملداری میں دیدیا۔
مجھے تاریخ کے ان اوراق کے پلٹتے ہوئے کئی قصے ،روایتیں اور ان کی صداقت کی گواہی دیتے قلعے ،ہتھیار اور حصار بنداجڑے شہر دیکھنے کو ملے جو گزرے زمانوں کی داستاں اپنی زبان سے بیان کرتے نظرآتے ہیں

احمد شاہ ابدالی اور مراٹھوں کے درمیان 1761کی جنگ کی عکاسی

جب میں ہریپور سے سفر کرکے پوہار میں واقع صوبہ خان تنولی کے مقبرے تک پہنچا تو وہاں کے مقامی دوست مجھے قریبی پہاڑ پر واقع ایک حصار بند شہر کے کھنڈرات تک لے گئے جو روایات کے مطابق اس بہادر سردار کا ابتدائی مسکن رہا تھا۔

مقامی اور مستند روایات کے مطابق سن1700 کے اوائل میں بہادرخان تنولی کے ہاں جنم لینے والے صوبہ خان تنولی اور ان کے بزرگوں کی مغل حکمرانوں سے کبھی نہ بن سکی ،جس کے نتیجے میں فریقین کے مابین تلخیاں جنم لیتی رہیں ،یہی وجہ تھی کہ صوبہ خان کے خاندان کیلئے ہمیشہ ان بلندوبالا پہاڑوں کا ساتھ رہا۔

اس مقام پر اجڑے ہوئے کھنڈرات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں یہ ایک بڑا حصار بند شہر یا گاؤں تھا جہاں موجود کھجور کے سینکڑوں درخت مشکل حالات میں ان لوگوں کیلئے خوراک اور تحفظ کا ذریعے تھے لیکن مجھے اس وقت شدید حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب میں نے محکمہ آثارقدیمہ سے تعلق رکھنے والے چند دوستوں سے ان مقامات کے بارے میں پوچھا تو ان کو جواب تھا ہمیں تو اس بارے میں کوئی علم نہیں اور نہ وہ کبھی ان علاقوں میں گئے ہیں.

مغل بادشاہ اورنگزیب کے دور میں صوبہ خان اور ان کے آباؤ اجداد ان پہاڑی چوٹیوں پر موجود گاؤں میں آباد رہے ،لیکن جیسے ہی مغل سلطنت روبہ زوال ہوئی انہیں اپنے لئے زیادہ وسیع سیاسی و معاشی رسوخ تلاش کرنے کے مواقع میسر آئے۔

صوبہ خان تنولی کی اولاد میں سے ریٹاہرڈ ہیڈ ماسٹر نیاز احمد تنولی

جب احمد شاہ ابدالی ہندوستان پر حملے کی نیت سے وارد ہوا تو نوجوان صوبہ خان نے اپنے قبیلے کے جوانوں کے ساتھ ان کی ہمرکابی کا فیصلہ کرلیا اور 1757ماتھورا کے مقام پر احمد شاہ ابدالی اور جاٹ ہندوؤں کے درمیان ہونے والے معرکہ میں صوبہ خان تنولی کی شجاعت و بہادری کے قصے تاریخ کا حصہ بن گئے جب مقامی داستانوں کے مطابق افغان بادشاہ کے ہمراہ مقامی ساختہ چھوٹی توپیں ”زمبورک “اٹھائے تناول کے جوانوں نے فتح میں اہم کردار ادا کیا (زمبورک آج بھی تناول کے مختلف مقامات پر موجود ہیں )

1757کی جنگ ماتھورا میں استعمال ہونے والی چھوٹی توپیں زمبورک جو قلعہ شیر گڑھ میں موجود ہے

اپنی کہانی کی تلاش میں میری ملاقات صوبہ خان تنولی کی اولاد میں سے ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر نیاز احمد تنولی سے ہوئی جن کے پاس صوبہ خان تنولی کے حوالے سے کئی مستند اور تاریخی دستاویزات موجود ہیں جن میں احمد شاہ ابدالی کی جانب سے صوبہ خان تنولی کو دیا جانے والا وہ خط بھی شامل ہے جس میں انہیں خطہ تناول کی عملداری دی گئی

سابق مدرس نیاز احمد تنولی کے پاس موجود افغان بادشاہ احمد شاہ ابدالی کا1771وہ تاریخی مخطوطہ جس میں انہوں نے ہندوستان کی مہم اور خاص طور پر ماتھورا کی جنگ میں سردار زبردست خان تنولی کی خدمات کا اعتراف کیا اور انہیں صوبہ خان کا لقب عطا کیا،
.
اس خط کے مطابق احمد شاہ ابدالی نے صوبہ خان کو 12ہزار روپے نقد اور 2ہزارروپے سالانہ کی جاگیر عطا کی اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں تناول سے کابل اور کشمیر کے درمیان گزرنے والے قافلوں سے محصول وصول کرنے کا اختیار بھی دیا گیا

بیڑ گاوں جو صوبہ خان نے ہندوستان کی مہم کے بعد آباد کیا

جس کی تائید 1783میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک افسر جارج فارسٹر کی ایک رپورٹ سے بھی ہوتی ہے جس میں انہوں نے لکھا کہ وہ جب تناول کے علاقے سے گزرے تو انہوں نے صوبہ خان کے بیٹوں کے حکم پر تجارتی قافلوں سے محصول وصول کرتے ہوئے دیکھا

احمد شاہ ابدالی اور مراٹھوں کے درمیان 1761میں لڑی جانے والی پانی پت کی تیسری جنگ اور 1757میں ماتھورا شہر کی فتح (تصویر بشکریہ برٹش لائبریری)
میدان میں ہرطرف لاشوں کے انبار لگے تھے جن میں سے چلنے کا بمشکل راستہ تھا ،ہر جانب خون ہی خون نظر آتا تھا۔ایک مقام پر لگ بھگ دوسوبچوں کی لاشیں ایک ڈھیر پر پڑی دکھائی دیں۔کسی بھی مردہ کے جسم پر سر نہ تھا۔میدان میں اتنا تعفن اور بدبو تھا کہ منہ کھول کرسانس لینا بھی محال تھا۔

اگرچہ احمد شاہ ابدالی کی سرپرستی نے صوبہ خان تنولی کو ہزارہ کا سب سے طاقتور سردار بنادیا تھا ،لیکن جنگ میں دیکھے مناظر نے ان کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے۔جنگ سے واپس ا?کر صوبہ خان نے اپنے دارلحکومت مانگل (موجودہ ضلع ایبٹ ا?باد کا ایک چھوٹا قصبہ جو ماضی میں ایک تجارتی و کاروباری مرکز تھا )کی جائیداد ایک صوفی بزرگ کو عطیہ کردی اور خود پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا لیا .صوبہ خان نے اپنی باقی ماندہ زندگی بیڑ(ضلع ہریپور) اور بھیرکنڈ(ضلع مانسہرہ )کی تعمیر اور ترقی کیلئے گزار دی (ماضی کے ان دونوں بڑے شہروں کے نام تنولی قبیلے کے گندھارا افسانوی کردار ”بیردیوا“کے نام سے موسوم کئے گئے۔

1846میں ہزارہ کے پہلے مورخ لالہ مہتاب سنگھ نے اپنی ایک تحریر میں لکھا ”ہند کی مہمات سے واپس آکر کے صوبہ خان تنولی نے اپنے بسائے نئے شہر ”بیڑ “ میں بڑی تعداد میں ہندو اور سکھ خاندانوں کو ا?باد کیا تاکہ اس شہر میں کاروباری و تجارتی سرگرمیوں کو فروغ مل سکے

ایک موقع پر جب خان کے خاندان میں ایک بچے کی پیدائش کی خوشی کی تقریب میں ہندو،سکھ اور مسلمان موجودتھے تو صوبہ خان نے ان سے کہا کہ اس شہر میں اسے اس کی نسل کے بڑھنے سے زیادہ خوشی نئے لوگوں کے ا?نے سے ہوگی .لالہ مہتاب سنگھ نے ایک مقام پر صوبہ خان کے بیٹے گل شیر خان کی جانب سے بیڑ میں ہندوؤں کے ایک مندر کی تعمیر کیلئے 2ہزارروپے عطیہ دینے کا تذکرہ بھی کیا ہے .

دریائے سندھ کا وہ مقام جہاں ریاست امب دربند کا دارلحکومت تہہ نشیں ہوا۔آج کے دورمیں پاک و ہند کے قوم پرست مورخین احمد شاہ ابدالی کے حملوں کو سلطنتوں کے مابین طاقت ،وسائل اور اختیارات کی جنگ سے زیادہ مذہبی جنگ کا رنگ دینے پر آمادہ نظر آتے ہیں جس کے نتیجے میں ہم ان جنگوں میں شامل لوگوں اور ان جنگوں کے متاثرین کے بارے میں جاننے سے محروم رہ جاتے ہیں ۔

احمد شاہ ابدالی کی بھرپور مالی و سیاسی حمایت کی بدولت صوبہ خان تنولی نے اپنے قبیلے کیلئے تناول پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی راہ ہموار کردی جس کے نتیجے میں احمد شاہ ابدالی کے دورحکومت کے بعد بھی زمانوں تک ان کا قبیلہ سکھ جارحین ہری سنگھ نلوہ کے حملوں اور سید احمد بریلوی کی مہم جوئی کیخلاف برسرپیکار رہے اور یہی وجہ تھی کہ 1858میں انگریز سرکار نے بھی ریاست امب دربند کو ایک نیم خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا

Comments are closed.