بنوں مظاہرین کو7 گز لمبا سلیوٹ

48 / 100
سبوخ سید

‏بنوں جمیعت علمائے اسلام ف کے زیر اہتمام یہ مظاہرے بنوں کے مسائل کے حل کے لیے نہیں ، تعلیم ،صحت ، مہنگائی ، بے امنی ، فرقہ واریت ، لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے نہیں ۔ خواتین کو پارک سے روکے جانے کے لئے مظاہرہ ہو رہا ہے۔ مظاہرے میں بنوں کی دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی شریک ہیں ۔ میں بنوں کے اس مظاہرے میں شریک ہر شخص کو سات گز لمبا سلیوٹ پیش کرتا ہوں جس کا ذہن نچوڑ کر ان کے دماغ کا یہ فریم بنایا گیا ہے۔

پاک فوج نے بنوں میں فیملی پارک بنایا تھا اور وہاں کچھ روز پہلے سفید شٹل کاک برقعے میں خواتین گئی تھیں ۔ بنوں کے ان مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ ہماری روایات اور ثقافت کے خلاف ہے ۔ یعنی بنوں کی عورت کو تفریح کا کوئی حق نہیں ، اگر وہ پارک جائے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ فحاشی پھیلا رہی ہے ۔

‏پارلیمان میں جے یو آئی ف کی مخصوص نشستوں پر خواتین ہیں، جے یو آئی ف کےرہنما خواتین سے ملتے ہیں،ووٹ لیتے ہیں،انٹرویو دیتے ہیں۔ اس وقت کوئی فحاشی نہیں ہوتی ۔ بنوں کے نوجوان اور منتخب اراکین اسمبلی عشق بھی کریں ، مجرے بھی دیکھیں ۔ رنگ رلیاں بھی منائیں اور مارے بھی جائیں تو فحاشی نہیں کہلاتی۔

بنوں میں اغلام بازی بھی ہو ، مشٹنڈے نوخیز لڑکے بھی جبرا ساتھ رکھیں ، نہیں نہیں یہ تو فحاشی نہیں کہلاتی ۔ یقین نہیں آتا تو ڈاکٹر ظہور کی کتاب تاریخ پشاور پڑھ لیں ۔ پھر بھی یقین نہیں آتا تو ایک چکر لگا کر دیکھ لیں ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بنوں کی خواتین انسان ہیں یا نہیں؟
اس ملک کا آئین انہیں برابری کا حق دیتا ہے یا نہیں؟
انہیں تفریح کا حق کیوں نہیں؟

ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں نے دیر میں ستر سال خواتین سے ووٹ کا حق چھینے رکھا، بدقسمتی سے اس میں پیپلز پارٹی جیسی جماعت بھی شامل تھی ۔

جے یو آئی کے ایک اہم رہنما نے بتایا کہ بنوں میں کلچر ہے کہ عورت گھر سے نہیں نکلتی ۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے نکلتی نہیں یا اسے نکلنے نہیں دیا جاتا ۔ ہمارے ساتھ پشاور یونیورسٹی میں بنوں کی کچھ لڑکیاں پڑھتی تھیں ۔ پڑھتی کیا تھیں ، کڑھتی رہتی تھیں ۔ وہ ملائیت کی اس درندگی اور جبر کے خلاف اس حد تک آگے چلی گئی تھیں کہ ۔۔۔۔۔۔وہ لکھنے لائق نہیں ۔

ظلم کو ثقافت نہیں کہا جا سکتا ، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو آپ کے تفہیم مذہب اور رواجوں کی بھینٹ نہیں چڑھایا جا سکتا۔ یہ جماعتیں مدارس اور مساجد میں بد فعلی کے واقعات پر احتجاج تو دور ایک بیان تک نہیں دیتیں بلکہ بدکاری کے عمل میں شریک لوگ ان کے جلسے اور جلوسوں کی زینت ہوتے ہیں ۔

یہی لوگ تھے جو بیس سال پہلے پارلیمان میں کاروکاری، ونی ، سوارہ جیسی جاہلانہ رسموں کو ثقافت کہہ کر روشن خیال لوگوں کا منہ بند کر دیتے تھے ۔ محترم روؤف کلاسرا صاحب نے 2005 میں دی نیوز اخبار میں پانچ لڑکیوں کوغالبا بلوچستان میں زندہ درگور کرنے کی خبر دی تو سینٹ میں اس وقت مسلم لیگ ن کے سینیٹر نے کہا تھا کہ جناب چئیرمین آپ اس کے خلاف نہیں بول سکتے ، یہ ہمارا کلچر اور بنیادی قدر ہے۔

‏ہم ایک ایسےمعاشرے میں سانسیں لینے پر مجبور ہیں جہاں دولےشاہ کے چوہوں کاراج ہے۔ آپ مجھے ہزار گالیاں دے لیں ۔ جو کہنا ہے کہہ لیں لیکن ایک بات لکھ کر رکھ لیں ۔ تیس سال گزرنے دیں ، یہی بنوں ہو گا ، یہاں ایک نہیں بے شمار فیملی پارک ہوں گے ۔ یہاں ہماری بہنیں بیٹیاں پورے اعتماد کے ساتھ تعلیم حاصل کریں گے ۔ اپنا حق مانگیں گی نہیں ، خود اس پر عمل کریں گے ۔

یہ سارے نام نہاد ” غیرت مند” ٹھنڈے چوہے (پانی کا چشمے) پر بیٹھے دل ہی دل میں اپنی حماقتوں پر لعنت ملامت کر رہے ہوں گے اور ان کی اولادیں اپنے نام نہاد بڑوں کے ان چھوٹے کاموں پر شرمندہ ہو رہی ہوں گی ۔ جن جاہلوں کو پانی کی نفسیات کا نہیں پتہ ، انہیں سیلابی ریلوں کی ویڈیوز ضرور دیکھنی چاہیے ۔

میں کسی کا حامی یا مخالف نہیں تاہم انسانی حق اور جبر کی ہر ریت اور رواج کے خلاف کھڑا ہونا اپنا فرض سمجھتا ہوں ۔ اسی لیے جب قائد جمیعت مولانا فضل الرحمان صاحب کے صاحبزدے رکن قومی اسمبلی مولانا اسعد محمود صاحب یوم پاکستان کے موقع پر رقص دیکھ رہے تھے تو میں نے ان کے خلاف باقی لوگوں کی طرح کچھ نہیں لکھا کہ یہ فحاشی کیوں دیکھ رہے ہیں 

کیونکہ ان کی مرضی جو دیکھیں ۔ سر عام دیکھیں یا بند کمروں میں دیکھیں ، آپ کو کیا تکلیف ہے ۔ یہ ان کا حق ہے ۔ جمیعت علمائے اسلام کے کارکنان کو اپنے قائدین کی طرح اپنے دل ، دماغ اور ظرف بڑے کر کے لوگوں کو ان کے انسانی حقوق میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے ۔

Comments are closed.