محسن ارض پاکستان !جنرل سرفراز علی شہید کا روشن تذکرہ

50 / 100

پروفیسر حافظ سجاد قمر

بلوچستان فلڈ ریلیف آپریشن کے دوران کور کمانڈر کوئٹہ اور ان کے ساتھیوں کا طیارہ لاپتہ ہونے کی اطلاع اتنی افسردہ اور پریشان کن تھی کہ بہت دیر تک کچھ سجھائی ہی نہ دیا کہ کیا ہو گیا ہے۔دل ماننے کو تیار نہ تھا۔جنرل سرفراز علی کا ملنسار اور مسکراتا چہرہ نظروں کے سامنے آ گیا۔دل اداسی سے بھر گیا۔

فوری طور پر کوئٹہ کمانڈ سے کرنل اشفاق کو میسج کیا۔انھوں نے تصدیق کر دی ۔باری باری بہت کوئٹہ کے بہت سارے افسران کو میسج کیے کہ شاید کوئی تردید کر دے۔لیکن سب کی طرف سے دعاؤں کی درخواست آئی۔میں نے سب دوست احباب کو میسج کیا اور دعاؤں کی درخواست کی۔ہیلی کاپٹر تو کئی دفعہ بہت نیچی پرواز کرتا ہے ۔خدانخواستہ گر بھی گیا تو انشاء اللہ خیر ہو گی۔ہو سکتا ہے کہ کہیں اور اتر گئے ہوں۔
کسی علاقے میں رک گئے ہوں۔

میں اور پوری قوم اسی طرح کی خواہشات دل میں رکھ کر دعائیں کر رہے تھے۔پوری قوم نے رات بھر کرب میں گزاری۔
لیکن مالک حقیقی کو کچھ اور ہی منظور تھا۔آخر وہ روح فرسا خبر آ گء جس کو سننے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں تھا۔لیکن
امر ربی ہو کر رہا۔
” بے شک سب اللہ کے لیے ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
(البقرہ)
اطلاع آ گء تھی کہ جنرل سرفراز علی اور ان کے ساتھیوں کا ہیلی کاپٹر جو فلڈ ریلیف آپریشن کی نگرانی کرتے ہوئے لسبیلہ کے علاقے اوتھل سے کراچی جاتے ہوئے لاپتہ ہو گیا تھا۔اس کا ملبہ ساکران میں موسی گوٹھ کے قریب کچھ کراوڑ سے مل گیا ہے۔لسبیلہ سابق وزیر اعلی جام کمال کا آبائی علاقہ ہے۔مقامی افراد رات ایک بجے تک تلاش میں مصروف رہے لیکن رات کو اندھیرے کی وجہ سے تلاش کا آپریشن روکنا پڑا۔اور اگلی صبح مقامی افراد اور فورسز کی مدد سے ہیلی کاپٹر کا ملبہ اور اس میں دبے قوم کے ہیرے اور موتی مل گئے۔
جان دی ،دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔
جنرل سرفراز علی کے ساتھ حال ہی میں پروموٹ ہونے والے میجر جنرل امجد حنیف،بریگیڈئر محمد خالد،میجر سعید احمد،میجر طلحہ منان،اور نائیک مدثر فیاض بھی راہی جنت الفردوس الاعلی ہوئے۔


ہیلی کاپٹر 5 بج کر دس منٹ پر اوتھل سے اُڑان بھرنے کے بعد راستے میں کنٹرول ٹاور سے رابطہ کھو بیٹھا۔چھ بج کر پانچ منٹ پر کراچی پہنچنے کی بجائے اپنے مسافروں کو لے کر حقیقی منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔جہاں یکے بعد دیگرے سب نے جانا ہے۔لیکن یہ دنیا ایسی ہے کہ ہمیں ہر وقت الجھائے رکھتی ہے کہ ابھی بہت وقت باقی ہے۔ابھی تو زندگی شروع ہوئی ہے۔لیکن کامیاب ہیں وہ لوگ جو اس کی تیاری میں مصروف رہتے ہیں۔اور مخلوق خدا کی خدمت کرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے ملاقات کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل چوہدری سرفراز علی شہید کا آبائی تعلق سیالکوٹ سے تھا۔پیدائش شاہینوں کے شہر سرگودھا میں ہوئی۔آپ کے والد اسکواڈرن لیڈر چوہدری دیوان علی تھے۔آپ کے علاوہ دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔والدہ حیات ہیں۔آپ کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔بیٹا کیپٹن احمد ہے جو آپ کے ساتھ بطور اے ڈی سی فرائض سر انجام دے رہا تھا۔

جنرل سرفراز علی کا تعلق 79 ویں لانگ کورس سے تھا۔اور وہ پاکستان آرمی کی شکست آزاد کشمیر رجمنٹ کا حصہ تھا۔میرے علاقائی دوست اور معروف صحافی مطیع اللہ جان جو صحافت میں ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔وہ اور جنرل سرفراز پی ایم اے میں ایک ہی پلاٹون میں تھے۔حقیقی کھرا سچ بولنے والے صحافی نے بھی جنرل کے ساتھ جو اس دور کی یادیں تازہ کی ہیں اس میں ہر طرف حلم،بردباری اور ایک متوازن شخصیت دکھائی دیتی ہے۔ایک محنتی اور کام سے کام رکھنے والا طالب علم،جس کے تیار کردہ نوٹس صدقہ جاریہ کا کام کرتے تھے۔

جنرل سرفراز علی فرنٹیئر کور کے آئی جی رہے۔اس دروان وہ تربت میں بھی رہے۔بریگیڈئر عبداللہ اس دوران ان کے ساتھ رہے۔بریگیڈئر عبداللہ کا کہنا ہے کہ وہ سفر سے پہلے دو رکعت نماز نفل پڑھتے تھے۔(یعنی جب وہ آخری سفر پر روانہ ہوئے تو تب بھی باوضو ہی تھے)۔اور جب بھی کسی شہید کا جنازہ لایاجاتا تو وہ نماز جنازہ پڑھاتے۔شہید کے تابوت چومتے ہوئے ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوتیں۔بریگیڈئر عبداللہ نے ان کی امامت میں تین نمازیں ادا کیں۔وہ ایک سچے مومن تھے۔ایک دفعہ ایک دور دراز گاوں گاؤں میں ایک بوڑھی خاتون بیمار تھی۔وہ خود اس کی عیادت کے لیے گئے اور پھر انھیں کوئٹہ ہسپتال منتقل کیا۔

ان کی خواہش تھی کہ بچیوں کو پڑھایا جائے۔آخرت میں بخشش کی تڑپ رکھتے ہوئے انھوں نے اس کام میں مقدور بھر حصہ ڈالا اور تربت کی خواتین کو بڑی تعداد میں ہنرمند بنایا۔
آپ امریکہ میں پاکستان کے دفاعی اتاشی رہے۔جب موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف دسویں کور کمان کر رہے تھے۔تب آپ نے ٹرپل ون بریگیڈ کو کمان کیا۔
امریکہ سے واپسی کے بعد سٹاف کالج کوئٹہ کے کمانڈنٹ تعینات ہوئے ،پھر ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس مقرر ہوئے۔ملٹری انٹیلیجنس کے بعد وہ ایف سی بلوچستان جنوب تعینات ہوئے ۔یہی وہ علاقہ ہے جہاں آپ کی شہادت ہوئی۔

دسمبر 2020 میں آپ کور کمانڈر کوئٹہ تعینات ہوئے۔جنرل سے میرا پہلا تعارف میجر جنرل دلاور خان تھے۔جن کا آبائی تعلق گجرات سے ہے۔ایک صحیح پیشہ ورانہ کردار رکھنے والے سپاہی اور اعلی تعلیم یافتہ دانشور ہیں۔دلاور خان جنرل سرفراز کے ساتھ فرائض سر انجام دے رہے تھے۔کوئٹہ کے سفر میں جہاں وہ میزبان تھے،ان سے بلوچستان کے حوالے سے تفصیلی بات ہو رہی تھی۔2013 کے آخر میں جب میں وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف کے ساتھ کوئٹہ گیا تھا تب ہمارے میزبان کہتے تھے کہ مغرب کے بعد باہر نہیں نکلنا۔لیکن اب یہ معاملہ نہیں تھا۔چوہدری امتیاز اور ہم رات گئے بھی باہر گھومتے پھرتے رہے۔اور خوبصورت موسم سے لطف اندوز ہوتے رہے۔

بھائی دلاور خان نے تفصیل سے حالات سے آگاہ کیا۔سب سے اہم فوکس تعلیم تھا۔کالجز ،یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ اعلی تعلیم پر خصوصی توجہ دی گء۔مستحق، نادار لیکن ذہین ترین طلبہ و طالبات جو میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم وسائل نہ رکھنے کی وجہ سے دنیا کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے تھے۔مختلف اداروں کے کنسورشیم سے 12 ویں کور نے ان کے لیے اس کا بندوبست کیا ۔اور کوشش کی کہ کوئی بھی پیچھے نہ رہے۔نہ صرف تعلیم،بلکہ ان کے لیے رہائش اور ہر طرح کا بندوبست کیا گیا۔ بھائی دلاور خان حید آباد اور جنرل سرفراز جنت مکین ہوئے لیکن چشمہ فیض جاری ہے۔

یہ دنیا ایک چمن ہے اور ہم سب جانور
اپنی اپنی بولیاں بول کر سب اڑ جائیں گے۔

چشمہ فیض کی نگرانی اب لیفٹنٹ جنرل آصف غفور کر رہے ہیں جو خود ایک اعلی پائے کے دانشور اور تعلیم دوست انسان ہیں۔چئیرمین یو ایم ٹی ڈاکٹر حسن صہیب مرادشہید کی تعزیت کے لیے جب صدر یو ایم ٹی ابراہیم حسن مراد کے پاس 2018 میں گئے تھے تب بھی دور دراز علاقوں کے طلبہ کے لیے اسکالر شپ کا اعلان کر کے گئے تھے۔

گزشتہ سال بھی ہم کوئٹہ گئے تھے۔تب صدر یو ایم ٹی کے ساتھ انھوں نے تعلیمی منصوبوں پر تفصیل سے بات چیت کی تھی۔(امید ہے کہ جنرل آصف غفور ان کو آگے بڑھائیں گے۔)۔رخصت ہوتے وقت میں نے بھائی دلاور خان کا تذکرہ کیا تو جنرل نے ان کی بہت تعریف کی اور کہا کہ وہ ایک چھے آفیسر ہیں۔اور میرے ساتھ بہت اچھا کام کیا ہے۔

منہ پر تو سب تعریف کرتے ہیں۔لیکن۔آپ کا اصل ذکر اور تعارف وہ ہے جو کوئی آپ کی عدم موجودگی میں کرے۔بھائی محمود جنرل کے اسٹاف آفیسر تھے۔جنرل سے اپنی یادوں کے پرت کھول رہے تھے۔کہ ان کی قیادت میں ہر کوئی بے خوف ہو کر اقدامات لیتا تھا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے جونیئرز کا تحفظ کرتے تھے۔اور ان کہ صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔اس کے لیے ضروری تھا کہ بے خطر ماحول فراہم کیا جائے۔جب وہ کور کمانڈر تھے تو انھوں نے اپنے سٹاف کو ہدایت کی کہ وہ شہدا کی فیملیوں کا ڈیٹا اکٹھا کریں۔اور ان کے نئے رابطہ نمبر حاصل کریں۔تا کہ ان کے ساتھ ہم رابطے میں رہیں۔اور یہی عمل انھوں نے تب بھی کیا جب وہ آئی جی ایف سی ساوتھ تھے۔اسی طرح وہ سوات میں سب سے پہلے شہید ہونے والے لیفٹیننٹ عاطف قیوم کے والدین سے ملنے ڈیرہ اسماعیل خان تواتر سے جاتے تھے۔وہ فطری طور پر ایک سچے اور محبت کرنے والے سپاہی تھے۔بہترین شوٹر تھے۔اور انھیں ہتھیاروں اور شوٹنگ سے بہت دلچسپی تھی۔وہ دشمن کے لیے بہت سخت تھے۔اور دوستوں کے لیے بہت نرم
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

محمود نے بھی گواہی دی کہ انھوں نے جنرل کو کسی شہید کے جنازے سے محروم نہیں دیکھا۔وہ ہمیشہ جنازہ خود پڑھایا کرتے تھے۔اسی طرح سفر میں بھی کبھی نماز نہیں چھوڑی ۔ہمیشہ باوضو رہتے۔بے شک وہ مومن تھے۔
ہمیشہ دوستوں اور عزیزوں کی شادی غمی میں شرکت کی کوشش کی۔ان کی سب سے اچھی عادت یہ تھی کہ وہ جوان آفیسر تھے تب بھی سب کا خیال رکھتے اور سب سے جڑے رہتے۔
محمود بتا رہے تھے کہ ایک دفعہ ان کی بیٹی سی ایم ایچ میم داخل ہوئی تو باوجود مصروف شیڈول کے ہسپتال آئے اور بیٹی کی عیادت کی ۔میرے لیے یہ ایک بڑا حوصلہ افزاء قدم تھا۔

ان کے ساتھ کام کرنا میرے لیے ایک یادگار ہے
جنرل سرفراز کو پالتو جانور مرغی اور پرندے بہت پسند تھے۔اور بہت شوق سے ان کا خیال رکھتے تھے۔
اتنے محبت کرنے والے کی شہادت کا کسی کو یقین نہیں تھا۔اگرچہ جنازہ کے وقت اور مقام کی کوئی تشہیر نہیں کی گء تھی تاہم اس کے باوجود جب میں اور ملک ابرار احمد ریس کورس پہنچے تو ہزاروں افراد موجود تھے۔جنازہ گاہ جو اتنی بڑی نہیں اس کی بجائے ریس کورس گراونڈ کا انتخاب کیا گیا تھا۔ہم آگے بڑھے اور جنازہ کی صفوں میں شامل ہوئے۔لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور سے سب سے پہلے علیک سلیک ہوئی۔ہم وہیں کھڑے ہو گئے۔اتنی دیر میں جنرل فیض حمید بھی آ گئے۔کور کمانڈر لاہور جنرل محمد عبدالعزیز، کور کمانڈر راولپنڈی جنرل ساحر شمشاد مرزا پہلے سے موجود تھے۔جنرل ر محمد افضل آئے تو میں نے ملک ابرار نے کھسک کر جگہ بنائی۔اسی اثناء میں وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف آ گئے ان کے پیچھے خواجہ محمد آصف اور ضیاء اللہ شاہ تھے۔

اور اسی دوران چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی آن پہنچے۔وہ اسی صبح کوئٹہ گئے تھے۔اور وہاں بھی شہداء کے جنازے میں شرکت کی۔اتنی دیر میں پاک فوج کا ایک چاک و چوبند دستہ شہداء کے میتیں پورے احترام کے ساتھ لے کر آیا۔شہدا ء کے ورثاء ساتھ تھے۔پہلی صف مکمل تھی۔ہمارے آگے ایک پیارا سے بچہ جو ابھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہا تھا،کھڑا ہوا۔جنرل افضل نے پوچھا کہ کس کے بیٹے ہیں۔وہ میجر جنرل امجد حنیف کا صاحب زادہ تھا۔تب ہم سب اس کو ملے۔دلاسہ دیا۔

اتنے میں ایک قد آور صف سے نکلا اور شہداء کے بچوں کو کہا کہ میری جگہ آ کر کھڑے ہوں۔یہ قد آور چیف آف آرمی اسٹاف تھے۔فوج کے حوالے سے بے شمار باتیں ہوتی ہیں۔لیکن یہ منظر قابل دید تھا۔جوں ہی نماز جنازہ ادا ہوئی آرمی چیف جنرل کی میت کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے۔لوگوں کو بتا رہے تھے کہ تابوت بند ہے لہذا آپ گزرتے جائیں۔لوگوں کا جم غفیر تھا جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔چئیرمین سینٹ صادق سنجرانی، ڈپٹی چئیرمین سینٹ مرزا محمد آفریدی، سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری ،سینیٹر شبلی فراز،سینیٹر سرفراز بگٹی،تحریک انصاف کے اسد عمر،سابق اسپیکر اسد قیصر ،وزیر اعلی خیبر پختون خواہ محمود خان اور ان گنت رہنما اور عوام موجود تھی۔

جنازہ پڑھنے کے بعد میں اور ملک ابرار احمد صاحب ریس کورس گراونڈ سے باہر نکلے اور آرمی قبرستان کی طرف بڑھے۔ہمارا خیال تھا کہ زعماء سب چلے گئے ہیں۔لیکن جوں ہی ہم نے دروازہ پار کیا ۔سامنے آرمی چیف کھڑے تھے۔ان کے آگے کمانڈوز کھڑے تھے۔اتنے میں جنرل صاحب نے ملک ابرار پکارا اور ہم آگے چلے گئے۔آرمی چیف سے ملے ۔تعزیت پیش کی اور پھر وہیں کھڑے ہو کر جنازوں کا انتظار کیا۔میجر جنرل بھائی محمد عرفان بھی ساتھ کھڑے تھے۔جنازے آئے تو آرمی چیف آگے بڑھے اور باری باری سب کو کندھا دیا۔ہمیں بھی یہ سعادت حاصل ہوئی۔

تدفین کے تمام مراحل میں آرمی چیف اپنے کمانڈروں کے ساتھ کھڑے رہے۔موقع بہ موقع خود ہدایات دیتے رہے۔شہداء کے بچوں کو اپنے پاس بلایا ،انھیں حوصلہ دیا۔سب کو دلاسہ دیا۔صبر کی تلقین کی۔ ایک ایک کو نام سے پکارا۔بریگیڈئر خالد شہید کی بیٹی بہت زیادہ رو رہی تھی۔اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔جسد خاکی لحد میں اتارے۔شہداء کی آخری نشانی اور قومی پرچم شہداء کے ورثاء کو دینے کی تقریب تھی۔رش بہت تھا۔چیف نے خود سب ورثاء کو آگے بلایا۔ان کو ایک جگہ کھڑا کیا۔قومی پرچم خود چوما اور پھر باری باری شہدا کے ورثاء کے سپرد کیا۔انھوں نے بھی قومی پرچم چومے ۔آنکھوں سے لگائے۔تب باری باری تینوں قبور پر چیف نے پھول رکھے اور ہر قبر پر فاتحہ پڑھی۔

سچی بات یہ ہے کہ آرمی چیف کا حادثے سے لے کر شہدا کی مکمل تدفین میں پورے جذبے کے ساتھ شرکت نے مجھے متاثر کیا۔بڑے بڑوں کو دیکھا ہے جو ساری زندگی ساتھ گزارنے والوں کے جنازے نہیں پڑھتے اور اگر کوئی پڑھ لے تو دومنٹ میں وہاں سے چلتا بنتا ہے۔
آرمی چیف کا اس طرح اپنے جوانوں اور افسروں کے ساتھ والہانہ لگاؤ اور محبت دیکھ کر مجھے ایک گونہ اطمینان ہوا کہ یہ واقعی پاک فوج ہے۔ایمان تقوی اور جہاد فی سبیل اللہ والی فوج ہی ہے۔اس کا ہر جوان اپنی جان ہتھیلی پر رکھتا ہے۔میں اس مقدس تحریر میں اور حوالے نہیں دیتا لیکن پاک فوج کا یہی وہ جذبہ ہے جو اس کو پوری دنیا میں منفرد کرتا ہے۔

اس کے بعد کور کمانڈر لاہور جنرل محمد عبدالعزیز اور مجھے جنرل سرفراز علی شہید، میجر جنرل امجد حنیف شہید ، بریگیڈئر خالد شہید کی قبور پر تلقین پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
۔سفید ریش لیفٹننٹ جنرل محمد عبدالعزیز کو قرآت کرتے دیکھ کر مجھے مزید اطمینان ہوا۔یہ مملکت خداداد پاکستان ہے۔اور اس ملک کی افواج اسی مٹی سے وابستہ ہیں۔ان کا خمیر اس مٹی سے اٹھا ہے جس کے وارثوں نے اس ملک کے لیے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔سروں کی فصلیں کٹوائی تھیں۔ان کا رشتہ مکہ اور مدینہ سے ہے۔

سرمہ ہے میری آنکھوں کا خاک مدینہ و نجف
کور کمانڈر راولپنڈی ساحر شمشاد مرزا جو قریب ہی کھڑے تھے انھوں نے جنرل سرفراز علی شہید کے بیٹے کیپٹن احمد ،اور شہداء کے بیٹوں کو پاس بلایا۔ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھے۔اور کہا کہ بیٹے چاہے چھوٹے ہوں لیکن گھر بڑے ہوتے ہیں۔اب آپ گھر کے بڑے ہیں۔سارے گھر کو آپ نے سنبھالنا ہے۔اور سہارا دینا ہے۔
سعودی عرب کے ملٹری اتاشی میجر جنرل عواد عبداللہ الزھرانی جسد بھی قبور میں اتار رہے تھے۔مٹی بھی ڈال رہے تھے۔سعودی عرب اور پاکستان کی لازوال محبت اور دوستی کا بھی اظہار ہو رہا تھا کہ غم کی اس گھڑی میں سعودی عرب پاکستان کے بھائیوں کے ساتھ ہے

کمی کوتاہی ہو سکتی ہے۔غلطیاں ہو سکتی ہیں۔لیکن اس کی بنیاد میں ٹیڑھ نہیں ہے۔اور یہ مملکت قائم و دائم رہے گا۔انشاء اللہ
Sajjadmediacentre@gmail.com

Comments are closed.