جب منقسم کشمیر دیکھا

50 / 100
مقصود منتظر

لفظ. … آزاد… پڑھ کر آپ حیران مت ہوجائیے گا.. ابھی کشمیر آزاد نہیں ہوا.. جب محکوم لوگ پیٹ اور شکم سے آزاد ہوکر قوم بن کر سوچنا شروع کردیں گے…جب مظلوم لوگ دوسروں کے اشاروں پر ناچنا اور ٹھمکیاں مارنا چھوڑ دیں گے….. یقیناً خود کے ساتھ دیگر کئی اقوام کو بھی آزاد فضاؤں میں جینا سکھا دیں گے.

یہاں بات ہورہی ہے آزاد لوگوں کی…. ان لوگوں کی جو کئی کئی نسلوں سے آزاد ہیں… ملکی حالات کی ٹینشنوں سے آزاد…. معاشی پریشانیوں سے آزاد…. عالمی طاقتوں اور اپنوں کی سازشوں سے آزاد…. ڈپریشن اور بلڈ پریشر سے آزاد… شوگر اور یوریک ایسڈ سے آزاد…لوڈ شیڈنگ کے عذاب اور گرمی و سردی سے آزاد…

صوبائی وضلعی حدود و قیود سے آزاد…امیر اور نامور بننے کے چکروں میں اپنی اچھی بلی صحت مختلف بیماریوں میں مبتلا کرنے کی تگ و دو سے آزاد…. .ڈاکٹروں کے نسخوں وکیلوں کے فیسوں تھانے کے چکروں اور پٹواریوں کے جگاڑ سے آزاد..کیمیکل او صرف پوڈر سے بنے دودھ… مردہ جانوروں کی انتڑیوں سے بنے گھی…حرامی چیکن سے آزاد. جی ہاں آزاد… اپنی قدیم روایات میں رہتے ہوئے مکمل آزاد جینے والوں کی بات ہورہی ہے..
چلیے… سفر شروع کرلیتے….
حال ہی میں حسن کی دیوی وادی نیلم کی سیر وتفریح کیلئے تین روزہ پروگرام بنا…. گاڑی اور بال بچے مظفرآباد میں سسرالیوں کے ہاں پارک کرکے دوپہیوں والی سواری موٹر سائیکل کو کیک مار کر سفر شروع ہوا…. ہماری منزل حسن و دلکشی کا مجسمے رتی گلی جھیل تھی..ایسی جھیل جہاں شام ڈھلتے ہی ان دیکھی مخلوق کا بسیرا ہوتا ہے… ہوائیں اور موسم ایک پل میں کیا سے کیا ہوجاتے ہیں..ختسار سے کہیں تو پریوں اور جنوں کا دیس….

اس دن موسم ہالی ووڈ کی ہارر فلم کے سینز کی طرح بدل رہا تھا…تیز ہوائیں بادلوں کو کبھی شمال کبھی تو کبھی جنوب کی طرف دھکیل رہی تھیں…لیکن بادل میدان چھوڑنے کو تیار نہ تھے… بڑے غصے سے وقفے وقفے سے برس رہے تھے.. سوچ وچار کے بعد ہم نے سسپنس اور تھرل کو ہی ترجیح دی.اور سفر پر روانہ ہوئے…

اٹھمقام تک خوبصورت روڈ پر تیز ہوائیں بار بار تنگ کرتی رہیں…لیکن سڑک پر گاڑیوں کی آمدورفت کم ہونے کے باعث ہم نے موٹر سائیکل بے خوف دوڑائی… سورج پہلے ہی کالی گھٹاؤں کا نقاب کرچکا تھا… ایسے میں دن دھلنے کا احساس کم ہوا…

مغرب کی ازان سے تھوڑے پہلے ٹیٹوال پہنچ کر پہلے اس پار کی وادی کا ٹاپ سے نظارہ کیا… محض چند میٹر بیچ میں ستتر سال سے دیوار بنی مصافت کو دیکھ کر آنکھ نم ہوئی… بے قراری اور بے چینی کے طلاتم نے پوری جسم کو کپکپایا..منٹوکا افسانہ ٹیٹوال کا کتا بھی یاد آیا. کچھ دیر بعد خود کو سنبھال کر دوبارہ منزل کی طرف رواں ہوئے…..
بارش کے باعث ٹھنڈ بڑھ رہی تھی اور سرد ہوائیں ٹانگوں پر ضربیں مار رہی تھیں…

رات کو اٹھمقام میں غیرمتنازع دوست لیکچرر ریاض بٹ کے ہاں ٹھہرے.. سردی بہت تھی اور موٹر سائیکل پر ٹانگیں شل ہوچکیں تھیں اس لیے کمرے میں داخل ہوتے ہی کمبل اور روم ہیٹر کی فرمائش کی…

کمبل میں گھستے ہی دوست نے نیلم کی سوغات چیری اور شاہ توت پیش کیں… ہمیں چائے کی طلب تھی سو بسم اللہ چائے سے کی…. کمرہ گرم ہوا تو سیاسی موضوع عام گفتگو میں کباب کی ہڈی بن گیا….اور یوں ہم رات دیر تک باتیں کرتے رہے..

صبح 6 بجے آنکھ کھلی… میں منہ ہاتھ دھونے کے بعد باہر نکلا اور فطرت کی غیر آلودہ رنگوں اور نظاروں کو دیر تک دیکھتا رہا…. ہر چیز کھلی کھلی اور اپنی جوبن پر تھی اور کسی خوبرو دوشیزہ کی طرح اپنی طرف کھینچ رہی تھی… لیکن مجھے قریب بیٹھی بلبلوں کی جوڑی کے رومانس میں خوب مزہ آیا…شاہد یہ ان کی پہلی ڈیٹ تھی. اس منفر د منظر کو دیکھتے ہوئے میرے ذہن کی اسکرین پر محبت کئی بھولے ہوئے سین چلنے لگے….

ناشتے کی فل ڈوز کے بعد ٹھیک آٹھ بجے دواریاں کی طرف چل نکلے.. یہ گاؤں اٹھمقام شہر سے تقریباً آدھا گھنٹے کی مسافت پر ہے… سڑک اچھی ہے اور دائیں طرف ٹھاٹھیں مارتا دریائے نیلم راگ سناتا ہے… صبح کا وقت تھا اور راستے میں سورج کی کرنیں عمران ہاشمی طرح نیلم کو بوسہ کررہی تھیں …

بوسے ایسے کہ پانیوں سے جیسے چنگاریاں اٹھ رہی تھیں… اس منظر نے ہمارے قدم بھی روک لیے… نیلم کنارے ٹھہرے اور پھر منقسم کشمیر کی بے دردانہ بندر بانٹ پر دل و دماغ میں گولے برسنے لگے…. اداس چہرے کے ساتھ کچھ سیلفیاں لیں…. اور پھر موٹر سائیکل دوڑا دی.. آس پاس کوئی شور تھا نہ سڑک پر رش… نیا دن تازہ ہوا اور اور بے پردہ دھوپ… ایسے میں دواریاں تک کے سفر کا پتہ ہی نہیں چلا…..

دواریاں سے جیپ کے ذریعے ہی رتی گلی جھیل کی طرف جانا پڑتا ہے… 20 کلو میٹر کا سفر دلکش مناظر کو دیکھ دیکھ کر ہی طے ہوتا ہے… دواریاں پل سے بائیں کی طرف مڑتے ہی نیلے پانیوں والے نالے کا شور شروع ہوتا ہے….سڑک بالکل کچی ہے… یہاں تک موٹر سائیکل پر جانا بھی دشوار ہے…

ہم نے ایڈوینچر کے چکر میں یہاں بھی معمول کے خلاف چلنا شروع کیا اور چند کلومیٹر طے کرتے ہی اپنی غلطی کا احساس ہوا…. البتہ جہاں مرضی وہاں رک گئے. طلحہ بٹ قدرت کے رنگوں اور رعنائیوں کو کیمرے میں بند کرتے رہیں…. یہاں آبادی نہ ہونے کے برابر ہے… راستے میں اکا دکا کوٹھے(ہندکو میں کچے مکان کو کوٹھہ کہتے ہیں) نظر آتے ہیں….. اور اس غیر انسانی علاقے میں ہماری ملاقات.. آزاد… لوگوں سے ہوئی….

خانہ بدوش کہلانے والے ان لوگوں کی زندگی کے چند پہلو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا… ان سے بیٹھ کر کھانا کھایا… لسی پی اور مکئی کی روٹی کھائی….ننگے حسن… بے جامہ دلکشی اور برہنہ نظاروں میں رہنے والے ان لوگوں کی زندگی بڑی ہی عجیب ہے.. یہ جھیل کنارے سوتے ہیں ایسی وادیوں میں جہاں دور بادشاہت میں شہزادے اور شہزادی تھکن اتارنے جایا کرتے تھے…

ناہموار اور گول پتھروں والی سڑک پر موٹر-سائیکل گھسیٹتے گھسیٹتے کئی مقامات پر رکنا پڑا… اس دوران سڑک کے قریب پرانے طرز کے کوٹھے نظر آئے… یہ کوٹھے مٹی پتھر اور لکڑی کے بنے ہوتے ہیں.. یہ صرف ایک منزلہ ہوتے ہیں.. ایک گھر کے باہر چند عورتوں کی بیٹھک ہورہی تھی…

میں تھوڑا قریب گیا تو اوپر سے پہرے دار کی طرح ایک چاچا نمودار ہوا… چاچے کی آواز کے ساتھ ہی آس پاس ہلچل ہوئی اور کئی جوان باہر آگئے… میں نے چا چا کو اشارہ کیا اور وہ سمجھ گیا کوئی پردیسی بابو ہے… لسی مانگی تو بابا نے اپنی چھڑی سے ایک برخوردار کو اشارہ کیا…. چند ہی لمحوں میں وہ لسی کا لوٹا اور مکئ کی روٹی لے آیا….

ہم ایک پتھر کو تکیہ کرکے بیٹھ گئے اور چاچا نے خوب کمپنی دی… یہ واقعی اللہ والے لوگ ہیں.. چاچا بار بار پوچھ رہا تھا بیٹا اور کچھ لے آؤں… ان کے ساتھ کشمیر کے حوالے سے گفتگو ہوئی اور ان کے رہن سہی سے متعلق… چاچا کی باتوں سے سمجھ آیا کہ ان کی زندگی سخت تو ہے لیکن بڑی ٹینشنو ں اور پریشانوں سے آزاد…..

تھوڑا آگے چلے.. یہاں خانہ بدوش قبیلہ خیمہ زن ہوا تھا …جو رہن سہن سے ترکی کے کائی قبیلے کی طرح تھا… ان کے مردوں سے خوب باتیں ہوئیں… بھیڑ بکریوں کا بڑا ریوڈ چند گھوڑے خچر اور ایک وفاداری پہرے دار کتا ان کا مال و متاع ہے…

ان کے دل بڑے اور صاف ہیں… میں بھیڑ بکریوں کی تصویریں بنارہا تھا تو اس خاندان کی عورتیں اور بچے خوش ہورہے تھے…. بھیڑ بکریوں کو سہلاتے وقت وہ یہ محسوس کررہے تھے جیسے میں ان کے کسی بچے کو پیار کررہا تھا…..


ان کے بزرگوں سے گفتگو کے دوران پوچھا… آپ کی زندگی کیا ہے؟

چاچا بولے…. نہ رکنا….بس چلنا.. کبھی اس نگر کبھی اس ڈگر…
پوچھا ایک جگہ رکتے کیوں نہیں.. یہ ریوڑ بیچ کر اسلام آباد یا کس دوسرے شہر میں کوٹھی نما گھر بناسکتے ہیں… بچے تعلم بھی پڑیں گے اور آپ آرام کریں گے…

بولے ہمارے بزرگ کبھی رکے ہیں…. ہاں جو کسی ایک جگہ مستقل طور پر رک گئے وہ خوامخواہ کی پریشانی سے سڑ گئے… انہیں شہر نگل رہا ہے.. اور ان بے پردہ فضاوں کو کیوں چھوڑ دیں.. ہر چیز فریش ہے….

چاچا سے ملاقات کے بعد ارطعرل کے قبیلے کی داستان میں گم ہوگیا…. سوچ رہا تھا جب تک وہ چلتے رہے تو قائم رہے جب وہ رک گئے تو عظیم الشان سلطنت ہونے کے باوجود مٹ گئے…… درست کہا چاچا نے.. چلنا ہی زندگی ہے.

Comments are closed.