چین کا مجوزہ ‘بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو’ پاکستانی پروفیسر کی نگاہ میں

50 / 100

نان جنگ (شِںہوا) پاکستان کے 47 سالہ پروفیسر شبیر محسن ہاشمی کا چین کے ساتھ طویل تعلق ہے۔2006 کے اوئل میں انہوں نے حکومت پاکستان اور چین کے مشترکہ تعاون سے اسکالرشپ حاصل کی۔

اب وہ چین کے مشرقی صوبہ جیانگ سو کے یان چھنگ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ‘بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو’ تحقیقی مرکز میں ڈائریکٹر ہیں۔

ہاشمی نے 2018 میں ایک ٹیلنٹ تعارفی پروگرام کے ذریعے یان چھنگ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں کام شروع کیا تھا۔ چین کا مجوزہ ‘بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو’ پاکستانی پروفیسر کی نگاہ میں کیا ہے۔

ہاشمی نے اس ادارے کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو تحقیقی مرکز کے پروفیسر اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے ماہرین تعلیم و صنعت کے درمیان مشترکہ روابط قائم کرکے چین اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو رکن ممالک کے درمیان باہمی تبادلے اور سیکھنے کو مستحکم کیا۔

ہاشمی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کو انسانی تاریخ کے اہم ترین منصوبوں میں سے ایک تصور کرتے ہیں۔بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے فوائد صرف چین تک محدود نہیں بلکہ یہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔

ان کی رائے میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں اہم کردار ہے۔ اس سے غربت کے خاتمے اور ان علاقوں میں ملازمت کے لاکھوں مواقع پیدا کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

ہاشمی کے مطابق بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو پاکستان کی خوشحالی و ترقی میں معاون و مددگار ہے۔ہاشمی نے مزید کہا کہ چین ۔

پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت چین توانائی، ٹرانسپورٹ، مواصلات اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر سمیت متعدد منصوبوں میں پاکستان کی مدد کررہا ہے۔ سی پیک کو چین کے پاکستان کے ساتھ خصوصی تعلقات کا نتیجہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔

ہاشمی نے کہا کہ سی پیک نے پہلے مرحلے میں قابل ذکر پیش رفت کی ہے، اور اس مرحلے کے بیشتر منصوبے کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں۔

سی پیک کے دوسرے مرحلے پر کام چل رہا ہے جس میں نئے اقتصادی علاقوں کے قیام اور زرعی شعبوں میں سرمایہ کاری سمیت طویل مدتی منصوبوں پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔

ہاشمی کو یقین ہے کہ یہ منصوبے اور پروگرام پاکستان اور چین دونوں کے لئے بہت مفید اور نتیجہ خیز رہیں گے۔

بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو پر مغربی میڈیا کے عمومی تاثر بارے ہاشمی کی رائے ہے کہ مغرب کی کچھ رپورٹنگ غیرحقیقی اور کسی حد تک متعصب ہے۔بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو بارے وہ بہت کم سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور انہوں نے اس پر بہت کم تحقیق کی ہے۔

شاید وہ صرف ان منصوبوں کی فہرست پر نگاہ ڈالتے ہیں تاکہ شناخت کرسکیں کہ وہ کہاں واقع ہیں اور کیسے مکمل ہوئے۔

گزشتہ برسوں میں ہاشمی نے چین بارے اہم مسائل پر گفتگو کی اور چین کے بنیادی مفادات کا بھرپور دفاع کیا ۔انہوں نے وسیع پیمانے پر اخبارات و جرائد میں لکھا اور معروضی انداز میں چین کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔

ایک ماہر تعلیم ہونے کے ناطے ہاشمی ہمیشہ چین اور پاکستان کے طلبا واساتذہ بارے فکرمند رہے۔

جب وہ اپنے اہلخانہ سے ملنے 2019 میں پاکستان آئے تو انہوں نے اسلامی یونیورسٹی میں زیرتعلیم چینی طلباء کے گروپ سے ملاقات کی اور انہیں عشائیہ پر مدعو کیا۔

عشائیے میں انہیں پاکستان میں چینی طلبا کو درپیش مشکلات اور مسائل بارے علم ہوا ،بعدازں انہوں نے متعلقہ محکموں کو مطلع کیا تاکہ ان کے مسائل حل ہوسکیں ۔

رواں سال اپریل میں جب ہاشمی نے جامعہ کراچی میں چینی اساتذہ پر حملے کا سنا تو انہیں گہرا صدمہ پہنچا اور انہوں نے اسے بے گناہ افراد پر گھناؤنا حملہ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گرد پاک چین تعلقات خراب کرنا چاہتے ہیں تاہم وہ اپنے مذموم مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے، ہاشمی چین و پاکستان کے تعلقات کو طویل اور پھلتے پھولتے دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔

Comments are closed.