آرزو وہ ہے جو دل میں رہے ناز کے ساتھ!

48 / 100
فہیم خان

کسی بھی چیز کے کھو جانے کے بعد انسان غم کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے۔ اور یہ تمام مراحل اپنا وقت لیتے ہیں ان کو جلدی سے دور نہیں کیا جا سکتا۔ہم عموماً زیادہ دکھی تب ہوتے ہیں جب کسی ایسے شخص کو کھو دیں جسے ہم طویل عرصے سے جانتے ہوں۔

تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں صبر آ جا تا ہے، اداسی کم ہونے لگتی ہے اور ہم دوسری چیزوں اور آئندہ کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔ لیکن پھر بھی کسی کے کھو جانے کا احساس مکمل طور پہ کبھی بھی ختم نہیں ہوتا۔

جب ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم محبتوں اور رشتوں کے جن بندھنوں میں محفوظ تھے، وہ تو آہستہ آہستہ معدوم ہورہے ہیں۔ ہر بچھڑ نے والا پیغام دے رہا ہے کہ ہمارے حفاظتی حصار ٹوٹ رہے ہیں۔

ہمارے پاوٴں تلے محبت کا فرش دھیرے دھیرے سرک رہا ہے۔ ہم ہر ٹھوکر پر کچھ دیر کے لیے رکتے ہیں۔ محرومی کا یہ احساس ہمیں ہچکولے لگاتا ہے۔ ہم اس کی چبھن کو کچھ دیر محسوس کرتے ہیں۔لیکن پھر دنیا کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں۔

اپنا مستقبل سنوانے کے لئے۔۔۔ ہم شاید خیال کرتے ہیں کہ پیسہ اور دنیاوی وسائل ان رشتوں کا متبادل ہیں۔ ہم ان کی تمنامیں بے لگام دوڑتے ہیں لیکن ایسانہیں ہے۔

زندگی آخر ہے ہی کتنی ! اسے خوشگوار کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ ظاہر ہے آزووں سے نجات حاصل کر کے۔۔۔لیکن! یہ نجات کیسے حاصل ہو۔۔۔ آرزووں کو کیسے محدودکر لیا جائے کہ پھر ان کے پورا نہ ہونے پر رنج نہ ہو۔

درحقیقت آرزووں کی کثرت ہی دنیاوی چاہتوں کی جانب رغبت کا سبب بنتی ہے جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہمارا یقین اناپرستی،ظاہری دکھاوے اور پیسے پر آ جاتا ہے نتیجہ کیا ہوتا ہے؟

یقین کی کمی اور اس دنیا کی سب سے بڑی نحوست یقین کی کمی ہی ہے کس قدر بدنصیبی ہے کہ یقین اللہ پر ہونے کے بجائے دیگر چیزوں پر آجائے اور ہمارے ہاں عموماً ایسا ہی ہو رہا ہے۔

شیطان آرزووں کے بھیس میں دل پر وار کرتا ہے پھر بندہ خواہشات چاہت میں آرزووں کی ایک طویل شاہراہ پر بہت دور تک بھاگتا چلا جاتا ہے اور راستے میں آنے والے ہر تعلق اور مروت کو روندتے ہوئے خود غرضی کے مرحلے طے کرتا جاتا ہے اور ہر تعلق میں محض اپنے مفاد کو ہی دیکھتا ہے۔

اب یہ سوال ہے کہ آ خر ان آرزووٴں سے کیسے پیچھا چھڑایا جائے۔کیا اس کا کوئی حل ہے؟… تو اس حوالے سے ضروری ہے کہ ہم اپنے تعلقات اور رجحانات کودیکھیں۔۔۔لاصل طلب اورخواہش سے کنارہ کرلیں۔

بلاشبہ اکثر کسی شے کی طلب اورخواہش ہی انسان کو مایوسی کی طرف لے جاتی ہے۔۔
حالانکہ خدا کی بے شمار نعمتیں اسے میسر ہوتی ہیں جن کا اسے ادراک ہی نہیں ہوتا اور وہ اپنی ایک خوشی کے پیچھے لگ کر ناشکرا بن جاتا ہے اور رب کو ناراض کر بیٹھتاہے۔

اس لئے ہمیشہ رب کی چاہت مانگیں جب دنیا آپ کی نظر میں بالکل عام سی حیثیت اختیار کر جائے گی تو آرزووں سے پیچھا چھوٹ جائے گا۔
بس آپ اپنا دل صاف رکھیں کسی سے ناراض ہوں اور نا ہی ناراض رہیں۔۔۔اللہ نے چاہا تو کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔۔۔کیونکہ
آرزو وہ ہے جو دل میں رہے ناز کے ساتھ!

Comments are closed.