توشہ خانہ تحائف لینے والوں میں کون وزرائے اعظم اور صدر مملکت شامل ہیں؟

فوٹو: فائل

اسلام آباد( زمینی حقائق ڈاٹ کام)توشہ خانہ تحائف لینے والوں میں کون وزرائے اعظم اور صدر مملکت شامل ہیں؟ نواز شریف وزیراعظم نہ ہوتے ہوئے بھی تحفے میں ملی قیمتی گاڑی معمولی ادائیگی کرکے لے گئے تھے۔

نصف قیمت پر تحائف خریدنے کا قانون دسمبر 2018 میں وزیراعظم عمران خان نے متعارف کروایا تھا ،کابینہ ڈویژن کی جانب سے حال ہی میں تحائف کے حوالے سے رپورٹ جاری کی ہے جس میں تمام تفصیلات شامل کی گئی ،

اس سرکاری دستاویزات کے مطابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ نے اگست 2018 سے دسمبر 2021 تک توشہ خانے سے 58 سے زائد تحائف خریدے یا قانون کے مطابق 30 ہزار سے کم مالیت کے تمام تحائف مفت میں رکھے جا سکتے ہیں۔

عمران خان کی طرف سے خریدے جانے والے تحائف کی قیمت سرکاری حکام کی طرف سے 14 کروڑ 20 لاکھ لگائی گئی سابق وزیراعظم نے اس کے عوض تین کروڑ 81 لاکھ ادا کیے، آٹھ لاکھ کے چھوٹے تحائف تھے جو مفت رکھے گئے۔

اسی طرح صدر مملکت عارف علوی اور ان کی اہلیہ کو اسی مدت میں کل 92 تحائف ملے جن کی قیمت 45 لاکھ 47 ہزار لگائی گئی، صدر مملکت قومی خزانے میں 14 لاکھ 92 ہزار دے کر وہ تحائف گھر لے گئے۔

عمران خان نے قانون کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جو تحائف بلامعاوضہ رکھ لیے ان میں 30 ہزار کا ٹیبل میٹ، 20 ہزار ڈیکوریشن پیس، 20 ہزار کا لاکٹ، 25 ہزار کا مکہ کلاک ٹاور کا ماڈل، نو ہزارکا ڈیکوریشن پیس، آٹھ ہزار کی وال ہینگنگ شامل ہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی جانب سے خریدے گئے مہنگے تحائف میں ایک آٹھ کروڑ 50 لاکھ کی گریف گھڑی شامل ہے جو انہوں نے صرف ایک کروڑ ستر لاکھ روپے خزانے میں جمع کروا کر لی گئی
۔
سرکاری دستاویز کے مطابق گھڑی سمیت چار تحائف لیے جن کی مجموعی قیمت کا سرکاری تخمینہ 10 کروڑ نو لاکھ روپے بنتی ہے تاہم سابق وزیراعظم عمران خان نے اس قیمت کا صرف 20 فیصد یعنی دو کروڑ دو لاکھ روپے دے کر خرید لیا۔

ان تحائف میں 56 لاکھ کے کف لنکس، 15 لاکھ کا ایک پین اور 87 لاکھ 50 ہزار کی انگوٹھی شامل ہیں۔ اسی طرح انہوں نے ایک 38 لاکھ کی رولیکس گھڑی سات لاکھ 54 ہزار میں خریدی۔

متعدد اور گھڑیوں اور تحائف سمیت کل 14 کروڑ سے زائد مالیت کے تحائف وزیراعظم نے تین کروڑ 81 لاکھ روپے میں خریدے، جن کے بارے میں وزیراعظم شہباز شریف کا دعویٰ ہے کہ یہ تحائف دبئی میں بیچ دیئے گئے۔

سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف توشہ خانہ کیس احتساب عدالت میں ہے اور صدر آصف زرداری کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس زیرسماعت ہے۔ اسی کیس میں عدم پیشی پر احتساب عدالت نے نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے۔

سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو پاکستان کے سرکاری توشہ خانہ سے گاڑیاں لینے جب کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو گاڑیاں دینے کے الزام میں احتساب عدالت نے طلب کیا تھا۔

اس وقت نیب نے عدالت کو بتایا ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے غیر قانونی طور پر گاڑیاں حاصل کیں، یہ گاڑیاں غیر ملکی سربراہان مملکت نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری کو تحفے میں دی تھیں۔

قانون کے تحت یہ گاڑیاں پاکستان کے سرکاری توشہ خانہ یا گفٹ سنٹر میں جمع کروانی ہوتی ہیں،نیب کے مطابق 2008 میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے قواعد میں نرم کرکے صرف 15 فیصد رقم کی ادائیگی کرکے یہ گاڑیاں آصف زرداری اور نواز شریف کو دینے کی منظوری دی۔

نئے ماڈلز کی تین گاڑیوں کی نیب ذرائع کے مطابق اصل قیمت چھ کروڑ تھی۔ تاہم ابتدائی طور پر صرف نوے لاکھ کی ادئیگی کی گئی جبکہ ایکسائز آفس کے اعتراض پر مزید رقم جمع کروائی گئی اور یوں تینوں گاڑیاں دو کروڑ کی ادائیگی پر آصف زرداری کے نام کر دی گئیں۔

عدالت میں نیب کا مؤقف تھا کہ آصف زرداری نے تین گاڑیاں توشہ خانہ میں جمع کرانے کے بجائے خود استعمال کیں،اردو نیوز کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعظم کے متعلق نیب نے بتایا کہ نواز شریف 2008 میں کسی بھی عہدے پر نہیں تھے۔

یہی نہیں بلکہ نواز شریف کو 2008 میں بغیر کوئی درخواست دیے توشہ خانے سے گاڑی دی گئی اور ان گاڑیوں کی ادائیگی عبدالغنی مجید نے جعلی اکاؤنٹس سے کی گئی، بعد میں نواز شریف نے بتایا کہ انہیں 1992 ماڈل گاڑی ان کے دوسرے دور حکومت میں ایک دوست ملک سے تحفے میں دی گئی تھی ۔

نوازشریف کا موقف تھا کہ سال 1997 میں قومی توشہ خانہ میں جمع کروا دی گئی تھی، بعد میں یہ گاڑی 2008 میں انہیں بغیر درخواست دیے تحفے میں دی گئی، ان کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں معلوم تھا کہ گاڑی غیر قانونی طریقے سے خریدی گئی۔

ریفرنس میں یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے انہوں نے توشہ خانہ کی گاڑیاں نواز شریف اور آصف زرداری کو قوائد و ضوابط کے مطابق دیں۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ مذکورہ گاڑیاں سیکریٹری کیبنٹ کی سفارش پر سمری ملنے پر دی تھیں۔

رپورٹ کے مطابق دسمبر 2018 کے ضابطہ کار کے تحت تحفے میں ملنے والی گاڑیاں اور نوادرات خریدے نہیں جا سکتے، بلکہ گاڑیاں سرکاری استعمال میں آجاتی ہیں اور نوادرات صدر، وزیراعظم ہاؤس، میوزیم یا سرکاری عمارتوں میں رکھ دیئے جاتے ہیں۔

سرکاری حکام کے مطابق توشہ خانہ کے جو تحائف صدر، وزیراعظم یا حکام نہیں خریدتے ان کو ایک مقررہ مدت کے بعد نیلامی میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔

تحائف کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ میں جمع کروائی گئی تفصیل کے مطابق اس وقت توشہ خانہ میں 1200 روپے کے پیالوں سے لے کر ڈیڑھ کروڑ روپے تک کی گھڑیوں سمیت متعدد اشیا موجود ہیں جن میں کلاشنکوف، پینٹنگز، گھڑیاں اور پین شامل ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران 18-2017 کی رپورٹ جمع کروائی گئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق 90 بیوروکریٹس نے دو کروڑ سات لاکھ کے تحائف توشہ خانہ سے خریدے۔

صدر مملکت، وزیراعظم، وزرا، چیئرمین سینٹ، سپیکر قومی اسمبلی، صوبائی وزرائے اعلی، ججز، سرکاری افسران اور حتٰی کہ سرکاری وفد میں شامل عام افراد کو بیرون ملک دورے کے دوران ملنے والے تحائف کابینہ ڈویژن کے نوٹس میں لانا اور یہاں جمع کروانا لازم ہوتا ہے۔

Comments are closed.