مسلم ممالک نے فلسطینی اور کشمیری عوام کو مایوس کیا، وزیر اعظم

52 / 100

اسلام آباد(زمینی حقائق ڈاٹ کام) وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مسلمان ڈیڑھ ارب ہیں لیکن انہیں اہمیت نہیں دی جارہی، وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ تمام مسلمان ممالک کی اپنی اپنی خارجہ پالیسی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں
او آئی سی کونسل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو دہشتگردی کے ساتھ جوڑا گیا، مذہب کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں.

عمران خان نے کہا اسلاموفوبیا ایک حقیقت ہے، ہمیں اپنا بیانیہ آگے بڑھانا ہوگا، نائن الیون کے بعد اسلاموفوبیا کی سوچ میں اضافہ ہوا، اسلاموفوبیا کے خلاف اقوام متحدہ میں تاریخی قرارداد منظورہوئی۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں انسانی بحران ہے، وہاں کے لوگ پسند نہیں کرتے کہ انہیں کوئی ڈکٹیٹ کرے،40 سال ہوگئے ہیں کوئی قوم افغانستان کی طرح متاثرنہیں ہوئی۔

وزیراعظم اہم خطاب میں کہا کہ بھارت کشمیر میں باہر سے لوگوں کو لاکر مسلمانوں کو اقلیت بنارہا ہے، بھارت نے غیرقانونی طورپرکشمیرکا خصوصی اسٹیٹس ختم کیا۔

وزیراعظم عمران خان نے روس یوکرین جنگ بندی کےلیے او آئی سی اور چین کی مشترکا کوششوں کی تجویز دی اور اسلامی ملکوں کو غیر جانبدار رہنےکا مشورہ دیا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ کسی بلاک میں جانے اور جنگ کا حصہ بننے کے بجائے متحد رہ کر امن میں شراکت دار بنیں یہی سب کیلئے اور انسانیت کیلئے بہتر ہے.

جاری ہے

عمران خان نے کہا کہ نائن الیون کے بعد اسلامو فوبیا کی سوچ میں اضافہ ہوا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان ممالک نے اس کے خلاف کوئی اقدامات نہیں اٹھائے اور نہ ہی اس غلط بیانیے پر توجہ دی۔

وزیرِ اعظم نے سوال کیا کہ کیسے کسی مذہب کا دہشت گردی کے ساتھ تعلق ہو سکتا ہے؟ کیسے اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑا گیا۔ مسلمان ممالک کے سربراہوں کو اس پر ایک مؤقف اختیار کرنا چاہیے تھا جو بدقسمتی سے نہیں ہوا، لیکن اس کے بجائے اکثر سربراہان یہ کہتے رہے کہ ہم تو اعتدال پسند ہیں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے پر مغرب میں رہنے والے مسلمان زیادہ متاثر ہوئے، اقوام متحدہ کی جانب سے 15 مارچ کو اسلامو فوبیا کا عالمی دن منانے کی قرارداد کی منظوری پر وزیراعظم نے اجلاس کے شرکا کو خصوصی مبارکباد دی۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مسلم ممالک نے فلسطینی اور کشمیری عوام کو مایوس کیا، وزیر اعظم نے کہا مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم کسی طرح سے بھی اثر انداز نہیں ہو سکے۔

عمران خان نے کہا کہ ہم اندرونی طور پرمنقسم ہیں اور بڑی طاقتوں کو اس بات کا علم ہے، ہم 1.5 ارب کی آبادی ہیں اور اس کے باوجود اس کھلی ناانصافی کے خلاف ہماری آواز کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ہم کسسی ملک پر قبضے کی بات نہیں کرتے بلکہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کے انسانی حقوق کی بات کر رہے ہیں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کشمیریوں کو اکثریت سے اقلیت میں تبدیل کر کے انڈیا کشمیر کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کر رہا ہے، جنیوا کنوینشن کے مطابق کسی بھی مقبوضہ علاقے میں آبادیات کو تبدیل کرنا ایک جنگی جرم ہے۔ لیکن ان معاملات پر اسرائیل اور نہ ہی انڈیا پر دباؤ ڈالا گیا۔

انہوں نے افغانستان کی صورت حال کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے لوگوں کو اس قدر پیچھے نہ دھکیلا جائے کہ انہیں اپنی خودمختاری خطرے میں محسوس ہونے لگے۔

انھوں نے کہا ہمیں اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ او آئی سی اور چین مل کر روس اور یوکرین کے تنازع کو روکنے میں کس طرح اپنا کردار کر سکتا ہے۔ اس جنگ کے پوری دنیا پر دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ پہلے ہی اس جنگ کے باعث گیس اور گندم کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔

عالمی سطح پرتسلیم نہ کرنے اور معاشی پابندیاں عائد کرنے سے افغانستان کو خطرہ لاحق ہے۔ وہاں پر انسانی بحران شاید شروع ہونے کے قریب ہے اور پہلے ہی لوگ غربت کی سطح سے بھی نیچے جا چکے ہیں جبکہ قابل لوگوں کے انخلا کا سلسلہ جاری ہے۔

Comments are closed.