آن لائن کے مالک محسن بیگ کا 3روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

57 / 100

فوٹو: فائل

اسلام آباد(زمینی حقائق ڈاٹ کام)خبر رساں ادارے ، آن لائن کے مالک محسن بیگ کا 3روزہ جسمانی ریمانڈ منظور،انسداد دہشتگردی عدات نے ملزم کی استدعا پرمیڈیکل چیک اپ کرنے کاحکم دیدیا۔

ایف آئی اے کی طرف سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیاہے کہ وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید کی شکایت پر محسن بیگ کو ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا جس کے بعد انہیں تھانہ مارگلہ منتقل کیاگیا۔

پریس ریلیز کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے محسن بیگ کے گھر میں چھاپہ مارا، اس موقع پر ایف آئی اے کے پاس عدالت کی جانب سے حاصل کیے گئے سرچ اینڈ سیز وارنٹ بھی موجود تھے۔

ایف آئی اے اعلامیہ میں کہا گیا کہ دوران کارروائی ملزم محسن بیگ، ان کے صاحبزادے اور ملازمین نے ایف آئی اے ٹیم پر فائرنگ کی اور دو افسران کو یرغمال بنا کر زدوکوب کیا گیا۔

ملزمان کے پاس گولیاں ختم ہونے پر محسن بیگ کو گرفتار کیا گیا،اس کے بعد ایف آئی اے نے میڈیا پرسن اور تجزیہ کار محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ مار کر انہیں گرفتار کرتے ہوئے ان کے خلاف دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔

ملزم محسن بیگ اور دیگر مہمانوں نے ایک نجی ٹی وی کے نشر ہونے والے ایک پروگرام میں دس وزراء کو کارکردگی ایوارڈز پر بحث میں نازیبا الفاظ استعمال کئے تھے جب کہ محسن بیگ نے اس موقع پر مراد سعید کا نام لے کر ریحام خان کی کتاب کا حوالہ دیا تھا۔

اس پروگرام پر پیمرا نے نوٹس بھی جاری کیا تھا ، نوٹس کے مطابق اینکر غریدہ فاروقی نے اپنے پروگرام میں شریک مہمان سے سوال کیا کہ مراد سعید کی وزارت کے پہلے نمبر پر آنے کی حقیقی وجہ کیا ہے، جس کے جواب میں محسن بیگ نے کہا کہ وہ نہیں جانتے لیکن وجہ ‘ریحام خان کی کتاب میں لکھی گئی ہے۔

دوسری طرف محسن بیگ کے وکیل نے اسلام آباد کی ضلعی سیشن عدالت میں ان کی گرفتاری کے خلاف درخواست دائر کی جس پر ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے سماعت کی، عدالت نے بیلف مقرر کر تے ہوئے محسن بیگ کو عدالت پیش کرنے کا حکم دیا۔

وکیل کا کہنا تھا کہ ایس پی نے سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد کے ساتھ گھر پر دھاوا بولا، سرچ وارنٹ بھی نہیں دیئے،وکیل کا کہنا تھا کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے محسن بیگ کے بچوں کو مارا، موبائل فون توڑ دیے اور محسن بیگ کو ساتھ لے گئے۔

ایف آئی آر میں اقدام قتل، حبس بے جا کی دفعات کے علاوہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 بھی شامل کی گئی ہے، عدالتی بیلف نے محسن بیگ کے خلاف مقدمے اور گرفتاری کی رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی۔

ایف آئی آر کے مطابق محسن بیگ نے نجی پروگرام میں مراد سعید کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی، نجی ٹی وی پروگرام میں بے بنیاد کہانی اور توہین آمیز ریمارکس دیے گئے، پروگرام کو سوشل میڈیا پر بھی شیئر کیا گیا تھا، یہ بھی کہ مذکورہ اقدام سے عوام میں مراد سعید کی ساکھ کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی ۔

محسن جمیل بیگ کے خلاف تھانہ مارگلہ اسلام آباد میں دفعہ 149، 148، 186، 353، 342 اور 324 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ مقدمے میں محسن بیگ، بیٹا حمزہ اور 7 نامعلوم افراد کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔

پولیس نے محسن بیگ کو انسداددہشت گردی عدالت کے جج محمد علی وڑائچ کے سامنے پیش کیا، سماعت کے دوران محسن بیگ نے عدالت کو بتایا کہ صبح سویا ہوا تھا کہ یہ ڈاکووں کی طرح گھر میں داخل ہوئے، بغیر وردی گھر میں آئے اور گھر میں میری فیملی موجود تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں تھانے میں ایف آئی اے والوں نے تشدد کیا جبکہ میں پولیس کی حراست میں تھا، میری ناک، پسلیاں توڑی ہیں لہٰذا میرا میڈیکل کرا لیں، ملزم محسن بیگ کی استدعا پر عدالت نے میڈیکل چیک اپ کاحکم دیا۔

ملزم محسن بیگ نے کہا کہ مراد سعید کے حوالے سے کہا کہ میں نے کوئی بات نہیں کی،کتاب چھپی ہوئی موجود ہے، اس کا حوالہ دیا اور اس کتاب کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کی گئی۔

ملزم محسن بیگ نے موقف اپنایا کہ میرے تمام اسلحے لائسنس یافتہ ہیں، غیر قانونی اسلحہ نہیں ہے،سماعت کے دوران پولیس نے عدالت سے محسن بیگ کے پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی، عدالت نے ملزم محسن بیگ کو تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

سیشن کورٹ کا تحریری حکمنامہ

سیشن کورٹ اسلام آباد کے ایڈیشنل جج نے میڈیا پرسن تجزیہ کار محسن بیگ کی گرفتاری کے کیس کا 5 صفحات پر مشتمل تحریری حکمنامہ جاری کیا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بغیر کسی سرچ وارنٹ کے چھاپہ مارا گیا، مقدمہ 9 بجے ہوا اور ساڑھے 9 بجے ایف آئی اے کی ٹیم ریڈ کرنے پہنچ گئی، محسن بیگ کا بیان پولیس ریکارڈ کرے، قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔

ایڈیشنل سیشن جج کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے، ایس ایچ او کی ایف آئی آر سے ثابت ہوتا ہے چھاپہ غیرقانونی طور پر مارا گیا، سوا 2 بجے تک ایس ایچ او نے ریکارڈ اور محسن بیگ کو پیش نہیں کیا، چھاپہ مار ٹیم میں جو لوگ شامل تھے وہ چھاپہ مارنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے۔

عدالتی حکم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایس ایچ او مارگلہ نے چھاپہ مارنے والوں کیخلاف مقدمے کے بجائے الگ مقدمہ درج کیا، ایس ایچ او تھانہ مارگلہ نے جعلی کارکردگی دکھانے کیلئے مقدمہ درج کیا۔

Comments are closed.