ملالہ کا بھارت میں مسلمان طالبات کیساتھ تضحیک آمیز سلوک پر ردعمل

22 / 100

فوٹو: فائل

اسلام آباد( ویب ڈیسک) پاکستان کی نوبل انعام یافتہ سماجی کارکن ملالہ یوسفزئی کا بھارت میں مسلمان طالبات کیساتھ تضحیک آمیز سلوک پر ردعمل سامنے آیاہے اور انھوں نے بھارت میں طالبات کے حجاب پر ریاستی جبر پر سوال اٹھایا ہے۔

امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی کا بھارتی ریاست کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے معاملے پر آواز بلند کی ہے۔

ملالہ یوسفزئی کی طرف سے ٹوئٹر پر بیان میں کہا گیاہے کہ حجاب والی لڑکیوں کو اسکول میں داخل ہونے سے روکنا خوفناک ہے۔

نوبل انعام یافتہ پاکستانی طالبہ کا کہنا ہے کم یا زیادہ لباس پہننے کے معاملے میں خواتین پر اعتراضات برقرار ہیں،انہوں نے مطالبہ کیا کہ بھارتی رہنما مسلم خواتین کو مرکزی دھارے سے الگ کرنے کے عمل کوروکیں۔

http://

واضح رہے بھارتی ریاست کرناٹک میں لڑکیوں کے ایک سرکاری کالج میں 6 مسلم طالبات کو حجاب پہننے کی وجہ سے کلاس سے باہر نکال دیا گیا جب کہ اس کے بعد کرناٹک میں کالجز و یونیورسٹیز میں حجاب پہننے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

مسلمان طالبات کے ساتھ بد تمیزی و بد تہذہبی روز کا معمول بن گیاہے کبھی کالج کے گیٹ پر روک دیا جاتاہے اور کبھی کلاسوں سے باہر نکال دی جاتی ہیں،آج بھی کرناٹک کے کالج جانے والی باحجاب طالبہ کو انتہاپسند طلبہ کے جتھے نے ہراساں کیا۔

سوشل میڈیا پر اس مسلمان لڑکی کو ہراساں کرنے کی ویڈیو وائرل ہو ئی ہے جس میں وہ جونہی پارکنگ سے کالج جانے لگتی ہے ہندو انتہا پسند طلبہ کا جتھہ اس پر ہوٹنگ کرتا اورنعرے لگاتا اس کا راستہ روکتاہے جسے ایک ٹیچر ان سے بچاتا نظر آرہاہے۔

ویڈیو میں دیکھا جاسکتاہے کہ طلبہ کا گروپ ایک نہتی با حجاب مسلم طالبہ کو گھیر کر نعرے بازی کرتاہے جواب میں مسلم لڑکی تنگ آ کر اللہ اکبر کا نعرہ لگاتی ہے،کرناٹک میں کالج ڈسپلن کے نام پر حجاب پہننے والی طالبات پر تعلیم کے دروازے بند کئے جارہے ہیں ۔

ہندو لڑکے کالج میں داخل ہونے والی با حجاب طالبات کے ساتھ تضحیک آمیز رویہ اپنائے ہوئے ہیں،کرناٹک میں ایک اکیلی طالبہ کو نتہا پسندوں ہندو طلبہ کی جانب سے تنگ کرنے کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہورہی ہے۔

ہراساں کی گئی مسلمان طالبہ نے انڈیا ٹوڈے سے گفتگو میں بتایا کہ میں کالج جا رہی تھی جب کچھ لوگوں نے مجھ پر الزام لگایا اور کہا کہ میں برقعہ اتارنے کے بعد ہی احاطے میں داخل ہو سکتی ہوں، وہ مجھے اندر نہیں آنے دے رہے تھے۔

کرناٹک میں چند روز قبل باحجاب طالبات کو حجاب کے باعث کالج میں داخلے ہونے کی اجازت نہیں دی جارہی اور اندر آجانے والی طالبات کو الگ کلاس رومز میں بٹھایاجاتاہے جہاں ٹیچرز بھی نہیں آتے۔

انتظامیہ کا کہنا تھاکہ جب وہ حجاب اتار کر اور کالج یونیفارم پہن کر آئیں گی تب ہی کالج داخل ہو سکتی ہیں، ایک کالج میں حجاب پہننے کی پابندی کے بعد کرناٹک کی ریاستی حکومت نے طالبات کیلئے یونیورسٹیز اور کالجوں میں یونیفارم کو لازمی قرار دیدیا۔

اس حوالے سے غیر ملکی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیاہے کہ حجاب پہنے ہوئی طالبات درخواست کرتی رہیں کہ ان کا مستقبل داؤ پر نہ لگایا جائے لیکن پرنسپل نے ایک نہ سنی اور کالج میں داخل ہونے سے روک دیا۔

انتظامیہ کی جانب سے طالبات کو کالج میں داخل ہونے سے روکے جانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ طالبات کا ایک گروپ کالج کے دروازے پر کھڑا ہے اور انھیں اندر نہیں آنے دیا جارہا۔

ادھربھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق کیرالہ کی حکومت نے ریاستی اسکولوں کے طلبہ کیلئے شروع کیے گئے اسٹوڈنٹ پولیس کیڈٹ پروجیکٹ میں طالبات کے حجاب پہننے اورپوری آستین کی قمیض پہننے پرپابندی عائد کردی۔

ریاستی حکام کا کہنا ہے یونیفارم میں مذہبی علامات کو استعمال کرنے کی کوئی گنجائش نہیں اور نہ ہی اس کی اجازت دی جاسکتی ہے،رپورٹس کے مطابق کرناٹک کے ایک سرکاری کالج میں طالبات کے ایک گروپ کو ٹیچر نے حجاب پہننے پر کلاس میں بیٹھنے سے روک دیا ۔

الجزیرہ ٹی وی سے گفتگو میں کلاس سے نکالی گئی طالبات کے متاثرہ گروپ کی ایک طالبہ الماس نے بتایا کہ ‘دسمبر کی ایک صبح ٹیچر نے مجھے اور میری دوستوں کو حجاب پہننے کی وجہ سے کلاس میں نہیں بیٹھنے دیا اور تب سے ہم کلاس سے باہر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔

طالبہ الماس کے مطابق کالج انتظامیہ نے ہم پر قواعد ضوابط کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ حجاب کالج کے یونیفارم کا حصہ نہیں ،اس لیے جو فی میل سٹوڈنٹ حجاب پہنے گی وہ کلاس میں نہیں بیٹھ سکتی۔

رپورٹس کے مطابق طالبات کو 31 دسمبر سے اپنی کلاسز سے غیر حاضر قرار دیا گیا ہے حالانکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر روز کالج جا رہی ہیں،
ایک اور طالبہ مسکان نے الجزیرہ کو بتایا کہ ‘ہم سے کلاس میں مرضی سے نہ بیٹھنے کی تحریر زبردستی لکھوائی گئی ۔

انہوں نے مزید بتایا کہ سارا دن کلاس سے باہر رہنا کوئی اچھی چیز نہیں، ہمارے اساتذہ اور دوست ہمیں طعنے دیتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ہمیں حجاب اتارنے میں کیا مسئلہ ہے، دوسری طرف ایک مقامی وکلاء تنظیم نے طالبات کے ساتھ اس سلوک کو ہراساں کرنا قرار دیاہے۔

Comments are closed.