راول ڈیم، نیوی کلب گرانے ،سابق نیول چیف کیخلاف کرمنل کارروائی کا حکم

10 / 100

اسلام آباد(ویب ڈیسک)راول جھیل کنارے نیوی سیلنگ کلب گرانے کا حکم دے دیا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے کلب کی تعمیر غیر قانونی قرار دیتے ہوئے تین ہفتوں میں گرانے کا حکم دیا.

یہ فیصلہ گزشتہ روز محفوظ کیا گیا تھا جو کہ آج سنایا گیا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے نیول فارمز اور نیوی سیلنگ کلب کے خلاف فریقین کے وکلاء کے دلائل کے بعد درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلہ سناتے ہوئے نیوی سیلنگ کلب کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دیا اور حکم دیا کہ اسے تین ہفتوں میں مسمار کر دیں۔

سما نیوز کے مطابق مختصر عدالتی فیصلے میں لکھا کہ پاک فوج کا اہم سٹیٹس ہے جس کا مینڈیٹ آئین میں بتایا گیا ہے، نیوی کا اختیار نہیں کہ رئیل اسٹیٹ وینچر کرے، رئیل اسٹیٹ بزنس کے لیے ادارے کا نام استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ اتھارٹی کو اختیار نہیں تھا کہ نیوی کو این او سی جاری کرتی، پاکستان نیوی نے نیشنل پارک ایریا پر تجاوز کیا، سیلنگ کلب غیر قانونی ہے لہذا نیوی سیلنگ کلب کی عمارت تین ہفتوں میں منہدم کی جائے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سابق نیول چیف ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے غیر قانونی عمارت کا افتتاح کر کے اپنے آئین کی خلاف ورزی کی لہذا غیر قانونی عمارت میں ملوث افراد کے خلاف مس کنڈکٹ اور فوجداری کارروائی کی جائے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایڈمرل ریٹائرڈ ظفر محمود عباسی اور دیگر ذمہ داروں کے خلاف کرمنل کارروائی کا حکم دیتے ہوئے آڈیٹر جنرل کو نیول فارمز کا آڈٹ کر کے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ لگانے کی ہدایت بھی کی۔

اس سے قبل کیس کی گزشتہ روز کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فیصلہ سنانے سے پہلے دو وضاحتیں ضروری ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ممبر اسٹیٹ سے استفسار کیا کہ کیا ادارے نے قانون میں اجازت نہ ہونے کے باوجود این ا و سی جاری کیا جس پر ممبر پلاننگ سی ڈی اے نے عدالت کو بتایا کہ اُس وقت وہاں فارم ہاؤسز کی اجازت تھی.

عدالت کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ نیوی سیلنگ کلب تاحال سربمہر ہے بلڈنگ بائی لاز 2020 کے تحت غیر قانونی عمارت کو منہدم بھی کیا جاتا ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کسی ہاؤسنگ سوسائٹی کا این او سی ہی کینسل ہو جائے تو آپ کیا کرتے ہیں؟جس پر سی ڈی اے اہلکار نے جواب دیا کہ این او سی منسوخ ہو جائے تو ہم اسے ٹیک اوور کرتے ہیں این او سی کے بغیر کام کرنے والی غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے مینجمنٹ آفسز بھی سیل کرتے ہیں ۔

انہوں نے سوال کیا تھا کہ کیا زون فور میں 1993 میں تعمیرات ہو سکتی تھیں؟ سی ڈی اے نے بتایا کہ اُس وقت وہاں فارم ہاؤسز کی اجازت تھی۔

واضح رہے کہ اسلام آباد میں راول جھیل کے ساتھ قائم نیوی سیلنگ کلب اور نیوی فارمز کے خلاف شہری زینت سلیم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اسلام آباد نیشنل پارک میں تعمیرات غیر قانونی ہیں کیونکہ اس سے قدرتی ماحول متاثر ہو رہا ہے۔

درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ راول ڈیم سے راولپنڈی شہر کو پانی کی ترسیل کی جاتی ہے، اس لیے راول ڈیم کے کنارے سیلنگ کلب سے ماحولیاتی آلودگی پھیلے گی۔

جولائی 2020 سے یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا۔ ابتدائی طور پر نیوی حکام نے موقف اپنایا تھا کہ 1991 میں حکومت پاکستان نے یہ جگہ سیلنگ کی پریکٹس کے لیے پاکستان نیوی کے لیے مختص کی تھی۔

کیس کی متعدد سماعتیں ہونے کے بعد چیف آف نیول سٹاف نے تحریری جواب بھی جمع کرایا تھا۔

یہااں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اکتوبر 2020 میں بھی نیوی فارمز اور کلب پر فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا، لیکن فیصلے کی تاریخ نہیں دی گئی تھی.

اس کے بعد دوبارہ کچھ وضاحت طلب نکات پر عدالت نے سماعت مقرر کی اور حکام سے سوالات کے بعد چھ جنوری کو فیصلہ دوبارہ محفوظ کیا جبکہ نیول سیلنگ کلب اور نیول فارمز میں حتمی فیصلے تک تعمیرات پر پابندی بھی برقرار رکھی گئی تھی۔

Comments are closed.