وزیراعظم صاحب ! اب آپ نے ‘گھبرانہ نہیں ‘ہے

50 / 100
محبوب الرحمان تنولی

وزیراعظم عمران خان صاحب ! سب سے پہلے تو آپ نے گھبرانہ نہیں ہے۔کیا ہوا جو خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ایک سٹی میئر تک کی نشست نہیں جیت سکے۔۔ ۔ یہ کون سی پہلی باری ہے۔۔14 اکتوبر2018کی ضمنی انتخابات میں آپ قومی اسمبلی کی 7نشستوں پر ہار گئے تھے۔۔۔18فروری 2021کو آپ پی کے63نوشہرہ اور پی پی 51وزیر آباد میں شکست ہوئی۔۔ ڈسکہ الیکشن تو خیر ایک مشہور واقعہ ہے۔

زیادہ پیچھے نہ جائیں یہ18دسمبر 2021کو لاہور کے حلقہ این اے 133اور پی پی 206کا ضمنی الیکشن بھی مسلم لیگ ن نے جیتاہے۔ لیکن بلدیاتی انتخابات میں تو اس جماعت نے آپ کو شکست دی ہے جس کا آپ کے ارکان اسمبلی مذاق اڑاتے تھے۔۔ جی ہاں۔ مولانا فضل الرحمان کی جماعت جے یو آئی ۔۔آپ کو صوبائی ہیڈکوارٹر پشاور میں شکست دے کر بتایا ہے کہ آپ کی مقبولیت کا گراف کہاں تک پہنچ گیاہے۔۔ ۔ لیکن وزیراعظم صاحب آپ نے گھبرانہ نہیں ہے۔

حیرت ہے آپ کی سوچ کے لیول پر۔۔ ۔ ڈالر 174روپے۔۔ پٹرول141روپے لیٹر۔۔ بجلی کے نرخ مداری کلکولیٹرز کی سلیبز کی وجہ سے عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہیں۔۔ 200یونٹ کا اور 300یونٹ کے مختلف نرخ مقرر ہیں ۔۔ اوپر سے ہر ماہ ۔ نیپرا کی مہر لگا کر فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں صارفین سے بھتہ لے لیا جاتاہے۔۔ ۔ پہلے شاید یہ بھتہ خوری پچا س پیسے ۔ ۔60یا 70تک ہوتی تھی اب گزشتہ ماہ 4روپے74پیسے کردی گئی۔۔۔ اوپر سے وزیراعظم صاحب کا حکم ہے گھبرانہ نہیں ہے۔۔

آٹا ، چینی ، دالیں ، کوکنگ آئل کھانے پینے کی دیگر اشیاء کی قیمتیں عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو گئی ہیں۔۔ کسی ائٹم کا کوئی ایک ریٹ مقرر نہیں ہے نہ ہی یکساں نرخ یقینی بنانے پر کوئی چیک اینڈ بیلنس ہے۔۔۔ ایک ہی بازار میں۔۔ ایک ہی مارکیٹ میں بلکہ ایک ہی محلے میں ایک ہی چیز کے مختلف نرخ وصول ہو رہے ہیں۔۔۔اللہ خوش رکھے دکانداروں کو بھی قبر یاد نہیں۔۔ ۔حکومتی لاپرواہی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود ہی ۔۔ پانچ دس روپے قیمتیں اوپر وصول کرتے ہیں او ر ڈھٹائی سے بولتے ہیں یہ تبدیلی سرکار کی کارستانی ہے۔۔

ایک طرف پٹرول مہنگا ہے تو دوسری جانب سی این جی بند کر دی گئی۔۔ ۔ یہ جو وزیر توانائی ہیں حماد اظہر یہ بھی کمال کے سائنسدان ہیں۔۔ کہتے تھے صارفین کو سوئی گیس کھانے کے تین وقت فراہمی کیلئے سی این جی بند کی گئی ہے۔۔۔اور اب سی این جی ہے نہ سوئی گیس۔۔ چولہے ٹھنڈے ہیں۔۔غریب عوام سے نہ گاڑیاں چل پارہی ہیں اور نہ گھر۔۔مہنگائی کے طوفان میں دو وقت کی روٹی کا حصول محال ہو گیاہے اور اوپر سے ایک نیا ضمنی بجٹ لانچ ہونے جارہا ہے۔

جناب وزیراعظم ! کبھی فارغ وقت ملے تو زرا بیٹھ کر غور تو کریں۔۔ آپ عوام کو کس گناہ کی سزا دے رہے ہیں؟۔۔جب آپ ضروریات زندگی کی ہر شے کی قیمت ہفتوں اور پندرہ دنوں کے حساب سے بڑھا رہے ہیں یا بڑھنے دے رہے ہیں تو پھر ضمنی بجٹ کے نام پر آئی ایم ایف کا شکنجہ مزید کیوں کسنا چاہتے ہیں؟۔۔ایوان اقتدار کے مسند نشین عوام کے منتخب کردہ ہیں یا آئی ایم ایف کے؟

آپ تو کہتے تھے میں لوٹی ہوئی ساری دولت واپس پاکستان لے کر آوں گا۔۔۔زرابتائیے کتنی رقم واپس آئی ہے؟۔۔۔ آپ کہتے تھے میں کرپشن کا سارا پیسہ چوروں سے نکلواہوں گا۔۔۔ کتنا پیسہ نکلوایاہے؟۔۔۔قومی دولت لوٹنے والے کتنے لوگ پکڑے ہیں؟ کتنوں کو سزائیں ہوئی ہیں؟ ۔۔۔اگر آپ کے مدت میں کوئی پیسہ واپس نہ آئے تو کیا پھر ہم کوئی چارٹر اکاؤنٹنٹ ہائر کریں جو حساب لگائے کہ شہزاد اکبر صاحب اور ان کی ٹیم نے احتساب کے نام پر قومی خزانے کو کتنا بھاری ٹیکہ لگایا؟

وکلاء کی فیس، ٹریولنگ، ملک اوربیرون ملک تحقیقات کے نام پر سیر سپاٹے تو تب جائز ہیں جب قوم کے سامنے کوئی نتیجہ بھی آئے۔۔ اگر نتیجہ صفر جمع صفر برابر صفر ہے تو پھر یہ احتساب بھی تو قوم کا پیسہ لوٹنے کے ہی مترادف ہے۔۔اگر نیب کے اعدادوشمار درست ہیں تو وہ جو اربوں روپے برآمد ہوئے ہیں۔۔ وہ کدھر ہیں ان کااصراف کیاہے؟۔۔اگر وہ لوٹی ہوئی قومی دولت واپس آئی ہے تو کیا عوام پر بوجھ ڈالنے کی بجائے سبسڈی دے کر کھانے پینے کے اشیاء، گیس ، پٹرول اور بجلی کی قیمتیں 2018تک کی سطح تک واپس نہیں لائی جاسکتیں۔

قرضوں کے حصول کا لامتناعی سلسلہ ابھی تھما نہیں ہے۔۔۔کوروناریلیف بھی بے قاعدگیوں سے خالی نہیں تھا۔۔ اب راشن اسکیم بھی لاحاصل مشق ہے۔۔ ہزار روپے دینے کیلئے سٹورز کے سروے پر مزید رقم خرچنے کے بعد صرف تھوڑی سے آبادی کو برائے نام ایک ہزار کا ریلیف دینے سے بہتر تھا کہ آپ تمام اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں کم کردیتے تاکہ ملک بھر کے عوام کو فائدہ پہنچتا۔۔ لیکن کوئی بھی حکومت ہو روایتی مشیر کہانی گھڑ کر حکمرانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں اس بار یہ کام راشن اسکیم کے نام پرہو رہاہے۔

مہنگائی، بے روزگاری، پٹرول کی قیمت اور بجلی کے بلز کے ساتھ چمٹے ٹیکسز کی بھرمار۔۔عوام کیلئے سفر سمیت طرح طرح کے مسائل اور اذیتیں ۔۔ ستم بالائے ستم ۔۔ آپ فرماتے ہیں گھبرانہ نہیں ہے۔۔شاید اسی لئے آپ کو بھی عوام نے ضمنی انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں ڈنٹ ڈال کر بتایا ہے کہ ۔۔ آپ نے بھی نہیں گھبرانہ۔۔عوام کو جوآپ دے رہے ہیں وہ آپ کو لوٹار ہے ہیں۔۔ان مسائل کو بیرون ملک بیٹھے عمران خان کے ویل وشرز نہیں سمجھ سکیں گے۔

او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس سے ملک کی نیک نامی ہوئی ۔ حکومتی کوششیں لائق تحسین ہیں۔۔صحت کارڈ مستحسن اقدام ہے۔ خارجہ پالیسی میں اگر کشمیر کو مائنس رکھیں تو نسبتاً پہلے سے بہتر ہے۔۔ سفارتخانوں میں تارکین وطن سے تعاون نہ کرنے والے مشنز کو شٹ اپ کال دینادرست ہے۔۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینااور ان کیلئے دیگر اقدامات یا وعدے بھی اچھی پیش رفت ہے ۔۔ مگر عوام نے کیابگاڑا ہے آپ کا؟ ۔۔ آپ نام غریبوں کا لیتے ہیں۔۔ اورسنگ زنی بھی انہی پر۔۔اگر یہ سلسلہ ختم نہ ہوا تو پھر صرف خیبر پختونخوا نہیں بلکہ ملک بھر سے آپ کو انتخابات میں ایسی بری خبریں سننے کو ملیں گی۔

راقم نے پہلے بھی اسی پلیٹ فارم سے یاد دلانے کی کوشش کی تھی کہ جناب وزیراعظم! وقت ہاتھ سے نکلا جارہاہے ۔آپ کی ٹیم اتنا برا کھیل رہی ہے کہ آخری اوورز ہدف کے حصول کیلئے مسائل کی اوسط اتنی بڑھ جائے گی کہ آپ کیلئے واپسی کا راستہ نہیں رہے گا۔۔آپ صرف پیسے لے کر سروے رپورٹس شائع کرنے والے اداروں یا سوشل میڈیاپر آئندہ ووٹ کس کو دیں گے ؟ایسے سروے نتائج پر انحصار نہ کریں۔۔ زمینی حقائق مختلف ہیں۔۔ایسا نہ ہو۔۔آپ کی جماعت آئندہ انتخابات میں باہر ہو جائے ۔۔ اور لوگ مشورہ دیں۔۔ گھبرانہ نہیں ہے۔

Comments are closed.