خواجہ آصف اگر گستاخی نہ سمجھیں

54 / 100

انصار عباسی

6 جولائی 2020 کو میری ایک ایکسکلوزیو خبر جنگ اور دی نیوز میں شائع ہوئی۔ خبر کے مطابق پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر نے مبینہ طور پر نون لیگ کی سینئر قیادت کو وزیراعظم عمران خان کیخلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک لانے کی پیشکش کی۔

ایک باخبر ذریعے کا حوالہ دے کر خبر میں لکھا گیا کہ دی نیوز کو بتایا ہے کہ وفاقی وزیر نے حال ہی میں نون لیگ کی سینئر رہنما کی فیملی کے ایک رکن سے اس معاملے پر بات کی ہے کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تو پی ٹی آئی کے کئی ارکان قومی اسمبلی بھی اس کی حمایت کریں گے، پی ٹی آئی کے اتحادی جماعتوں کے ساتھ تعلقات پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں۔

خبر میں یہ بھی لکھا گیا یہ پیغام (جس ن لیگی کو ملا اُس نے) نواز شریف، شہباز شریف اور خواجہ آصف تک پہنچا دیا ۔ نون لیگ نے اب تک وفاقی وزیر کے اس ’’خیال‘‘ کا جواب نہیں دیا اور فی الحال ’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی کو ترجیح دے رہی ہے۔ خبر میں یہ بھی لکھا گیا کہ اس نمائندے نے مذکورہ وزیر سے رابطہ کیا تاہم انہوں نے دوٹوک الفاظ میں انکار کر دیا.

بتایا کہ انہوں نے شریف فیملی والوں کو ایسا کوئی پیغام نہیں پہنچایا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ وزیر نے نون لیگ کی سینئر قیادت کے خاندان کے فرد سے رابطے کیلئے اپنا ذاتی موبائل فون استعمال کیا۔ ان کی نون لیگ کے مذکورہ شخص کے ساتھ پرانی وابستگی ہے اور بظاہر اسی تعلق کی وجہ سے ان کو نون لیگ تک یہ پیغام پہنچانے کی ترغیب ملی.

ذریعے نے یہ بھی بتایا کہ ایوان میں تبدیلی کیلئے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے 12 سے زائد ارکان اسمبلی تیار ہیں۔جس روز میری یہ خبر شائع ہوئی اُس دن یا اُس کے دوسرے روز ن لیگ کے رہنما خواجہ آصف صاحب نے ایک ٹویٹ کیا جس میں اُنہوں نے لکھا: ’’میرے سے تو کسی نے رابطہ نہیں کیا، انصار عباسی صاحب ما شاء اللہ محترم اور مستند صحافی ہیں، صحافتی آداب کو ملحوظ خاظر رکھتے ہوے اگر مجھ سے تصدیق کر لیتے تو مجھے تردید کی گستاخی نہ کرنی پڑتی۔ والسلامـ‘‘۔

جب خواجہ صاحب کا یہ ٹویٹ آیا تو اُس وقت بھی میرا یہ موقف تھا کہ نجانے مجھے خواجہ صاحب سے تصدیق کرنے کی کیا ضرورت تھی جب ن لیگ کے اُس فرد کو جسے وفاقی وزیر نے یہ پیغام بھیجا تھا مجھے خبر کنفرم کر چکے لیکن خواجہ صاحب کے اس ٹویٹ کے بعد سوشل میڈیا میں کئی افراد خصوصاً پی ٹی آئی کے لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ میں نے فیک یعنی جھوٹی خبر دی۔

گزشتہ ہفتہ سینئر صحافی ندیم ملک صاحب کے ٹی وی شو میں خواجہ صاحب مہمان تھے۔ ندیم ملک کے ساتھ بات کرتے ہوئے خواجہ صاحب نے کہا کہ کوئی ڈیڑھ سال پہلے پی ٹی آئی کے ایک وزیر نے ن لیگ سے رابطہ کیا اور کہا کہ پی ٹی آئی کے کوئی گیارہ بارہ اراکین عمران خان حکومت کے خلاف ن لیگ کاساتھ دے سکتے ہیں۔

خواجہ صاحب نے وزیر کا نام نہیں لیا لیکن یہ ضرور کہا کہ اُنہوں نے حال ہی میں قومی اسمبلی میں یہی بات کی تو وہ وزیر اُن کے پاس آئے اور اُن کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر کہا کہ نام مت لے لینا۔

مجھے گلہ خواجہ آصف صاحب سے یہ ہے کہ جس حقیقت کا وہ آج ٹی وی چینل پر بیٹھ کر اعتراف کر رہے ہیں اُس کی اُنہوں نے اُس وقت تردید کیوں کی جب میری یہ خبر دی نیوز اور جنگ میں شائع ہوئی۔ سیاستدان ہمارے لیے محترم ہیں لیکن اپنی سیاست کے لیے اُنہیں دوسروں خصوصاً صحافیوں کے کام پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔

اگر میری خبر غلط تھی تو ن لیگ کو تردید جاری کرنی چاہیے تھی لیکن خواجہ صاحب نے یہ معاملہ سوشل میڈیا پر اچھال دیا اور اچھالا بھی اس انداز میں کہ جس سے مجھ پر فیک نیوز دینے کے جھوٹے الزامات لگے۔ خواجہ صاحب مجھے جانتے ہیں۔ اگر اُن کے ذہن میں کوئی کنفیوژن تھی تو وہ مجھے فون کر کے بھی پوچھ سکتے تھے لیکن ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ جس خبر کی وہ ڈیڑھ سال پہلے تردید کریں.

آج اُسی خبر کی تصدیق کرتے ہوئے ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر دنیا کو بتائیں کہ کیسے ایک وفاقی وزیر نے ن لیگ سے رابطہ کیا اور حکمران جماعت کے گیارہ بارہ اراکین کے تعاون کا یقین دلایا تھا۔ خواجہ صاحب ایک سینئر سیاستدان ہیں، اُن سے اس بات کی مجھے توقع نہ تھی۔ مجھے امید ہے کہ خواجہ صاحب اس کو میری طرف سے گستاخی نہیں سمجھیں گے۔
(بشکریہ روزنامہ جنگ)

Comments are closed.