حکومتی اتحادیوں کے مطالبات اور شکایات میں اچانک اضافہ کیسے ہو گیا؟

50 / 100

محبوب الرحمان تنولی

اسلام آباد:تحریک انصاف کی مخلوط حکومت کو اچانک چیلنجز کا سامنا کرناپڑ گیا ہے اور اپوزیشن کے دوبارہ سرگرم ہونے کے ساتھ ساتھ اتحادیوں نے بھی مطالبات اور شکایات کے ایکسلیٹرز دبا دیئے ہیں۔

حکومتی جماعتوں میں موجود مسائل اس وقت کھل کر سامنے آئے جب پارلیمنٹ کامشترکہ اجلاس بلا کر حکومت کو قانون سازی کئے بغیر ہی دوبارہ اجلاس ملتوی کرنا پڑ گیا سوال یہ ہے ،حکومتی اتحادیوں کے مطالبات اور شکایات میں اچانک اضافہ کیسے ہو گیا؟۔

پارلیمنٹ کے مجوزہ مشترکہ اجلاس میں حکومت نے پانچ بل منظوری کیلئے پیش کرنے کی تیاری کی تھی جس میں الیکٹرانک ووٹنگ، بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ اور کلبھوشن سے متعلق معاملات کو قانونی شکل دینا شامل تھا ۔

ذرائع کے مطابق اتحادی جماعتوں کے تحفظات کے باعث حکومت نے پارلیمنٹ میں شکست ہو جانے کے خدشات کے پیش نظر اجلاس ملتوی کرنے اور پہلے اتحادی جماعتوں کااعتماد حاصل کرنے کو ترجیح دی۔

پاکستانی سیاست کو سمجھنے والے بالغ نظر زی شعور طبقہ اچانک اتحادیوں کے مطالبات کی نوعیت سے آگاہ ہے ، وطن عزیز میں عموماً اچانک اتحادی بن جانے والے اچانک ساتھ چھوڑ دیتے ہیں یہ ہمیشہ سے روایت رہی ہے۔

قابل اعتبار ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کی شکایات اب دور نہیں ہونے والی ہیں اور امکان غالب ہے کہ کراچی والوں نے وقفہ دیا تو پنجاب والے تحفظات کااظہار کرتے رہیں گے ۔

ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی نے گزشتہ روز دوبارہ کراچی کے ساتھ کئے وعدوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ بار بار یقین دہانیوں کے باوجود وعدے پورے نہیں ہوئے، بلکہ انھوں نے یہاں تک کہاکہ ہم عدم اعتماد پارلیمنٹ کے بجائے بند دروازوں کے اندر کررہے ہیں۔

دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ (ق) نے پنجاب حکومت کی فیصلہ سازی پر انگلی اٹھائی ہے اور شکایت سامنے آئی ہے کہ پنجاب حکومت
مسلم لیگ (ق) اور کابینہ میں اس کے وزرا کو اعتماد میں نہیں لے رہی۔

مسلم لیگ ق کو ای وی ایم پر بھی تحفظات ہیں اور اس نے "پارٹی” سے مشاورت کے لیے کچھ وقت مانگا ہے،اتحادی جماعتیں اس بات پر بھی نالاں ہیں کہ انتخابی اصلاحات سے متعلق تجاویز پارلیمنٹ میں لانے سے قبل ہمارے ساتھ مشاورت کیوں نہیں ہوئی۔

حکومت کے دونوں بڑ ے اتحادی گروپس نے وزیراعظم سے ملاقاتوں میں اپنے تحفظات اور خدشات سے وزیراعظم کو آگاہ کردیا ہے، بادی النظر میں اس ہنگامی اختلاف رائے کی کوئی وجہ نظر نہیں آرہی ہے لیکن سیاسی اندازے درست بھی ہو سکتے ہیں۔

Comments are closed.