نوازشریف کے بلائے اجلاس میں عمران خان کا موقف زور دار تھا،عرفان صدیقی

57 / 100

فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد( ویب ڈیسک)نوازشریف کے بلائے اجلاس میں عمران خان کا موقف زور دار تھا،عرفان صدیقی نے یہ بات ایک انٹرویو میں کہی ہے ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف بھی ٹی ٹی پی سے مزاکرات کرنا چاہتے تھے لیکن تب عسکری قیادت سے معاونت نہیں ملی۔

ن لیگ کی حکومت میں ٹی ٹی پی سے مزاکرات کیلئے بنائی گئی حکومتی کمیٹی کے سربراہ سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اس وقت عسکری قیادت مذاکرات کے لیے یکسو نہیں تھی جب کہ نواز شریف 2013 کے انتخابات سے قبل ہی امن و امان کے قیام کے ساتھ ساتھ توانائی کے بحران کے حل کے لیے ذہن بنا چکے تھے۔

عرفان صدیقی نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ اس وقت طالبان سے مذاکرات اول و آخر نواز شریف کا اپنا فیصلہ تھا، حکومت بننے کے بعد جولائی-اگست میں وہ بہت کام کرتے رہے کہ کس طرح اس معاملے پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔

انھوں نے بتایا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے 9ستمبر کو ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائی جس میں تمام جماعتیں اورعسکری قیادت بھی تھی، سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی عسکری قیادت نے بریفنگ دی، عمران خان سمیت تمام جماعتوں کے سربراہ اس اجلاس میں شریک تھے۔

عرفان صدیقی نے انکشاف کیا کہ اس وقت بھی اے پی سی میں عمران خان کا موقف بہت زور دار تھا اور وہ کہتے تھے آپریشن کی بجائے ہمیں امن کے زریعے آگے بڑھنا چایئے، اجلاس میں اتفاق رائے سے فیصلہ کیا گیا کہ ہم نے آپریشن یا مار دھاڑ نہیں کرنی۔

عرفان صدیقی نے کہا کہ اس وقت کافی لوگ کہتے تھے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی تقریروں، اتفاق رائے پیدا کرنے اور مذاکراتی کمیٹیوں کی تشکیل سے قبل عسکری قیادت ایک فیصلہ کر چکی تھی کہ ہم نے آپریشن کرنا ہے اور انہیں لگتا تھا کہ میاں صاحب شاید اس آپریشن کا اعلان کرنے والے ہیں حالانکہ ان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

نوازشریف بھی طالبان سے مزاکرات چاہتے تھے لیکن عسکری قیادت کی معاونت نہیں ملی

طالبان سے مذاکرات کے لیے قائم سابقہ حکومتی کمیٹی کے سربراہ نے دعویٰ کیا کہ ہمیں مذاکراتی عمل کے دوران عسکری قیادت سے کوئی معاونت اور مشاورت نہیں ملی، ان کا ہم سے کوئی رابطہ نہ تھا جبکہ عسکری قیادت مذاکراتی عمل کے حوالے سے خوش گوار یا ہمدردانہ تاثر نہیں رکھتی تھی۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کے معاون خصوصی نے کہا کہ اس وقت بھی طالبان میں سنجیدگی نظر نہیں آئی، ان کی قیادت میں بھی یکسوئی نہیں تھی، ہم شوریٰ سے بات کررہے تھے لیکن خود شوریٰ ہم سے کہتی تھی کہ بہت سے لوگ ہماری کمان سے باہر ہیں، وہ واردات کر دیتے ہیں ۔

عرفان صدیقی نے بتایا کہ ہم نے اس پر ان کی شوریٰ سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسے لوگوں سے لاتعلقی کا اعلان اور ان کی مذمت کریں لیکن وہ یہ بھی نہیں کرتے تھے، اس لیے مذاکرات ہچکولے کھاتے رہے اور بات آگے نہیں بڑھ پائی۔

ان کا کہنا تھا کہ مذاکراتی عمل کے دوران ایک مرحلہ ایسا آ گیا کہ خالد خراسانی نے کئی سال قبل اغوا کیے گئے 23 ایف سی اہلکار عین مذاکرات کے دنوں میں شہید کردیے، ان کی یہ کوشش تھی کہ یہ بات آگے نہ بڑھے۔

آپریشن ضرب عضب پر عرفان صدیقی کا موقف تھا کہ ہمیں اچانک پتہ چلا کہ ضرب عضب شروع ہو گیا ہے، میاں صاحب نے ایک چھوٹی سی میٹنگ بلائی جس میں چوہدری نثار اور مجھ سمیت سینئر قیادت بھی شریک تھی اور ہم نے آپریشن شروع ہونے پر افسوس کا اظہار کیا۔

چوہدری نثار نے نواز شریف کے کہنے پر پارلیمنٹ میں بات کرنے سے معذرت کرلی

انہوں نے کہا کہ مذاکرات ناکام ہونے کے بعد ہم بھی یہ محسوس کررہے تھے کہ شاید اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے لیکن ہمیں اعتماد میں لینا چاہیے تھا، اس کے بعد نواز شریف نے چوہدری نثار سے کہا کہ اسمبلی میں جا کر اس بارے میں آگاہ کریں۔

عرفان صدیقی نے کہا کہ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ فیصلہ ہمارے بغیر ہوا ہے تاہم چوہدری نثار نے معذرت کرتے ہوئے وزیراعظم کو تجویز دی کہ وہ اس معاملے پر خود بات کریں جس پر نواز شریف اسمبلی گئے اور مذاکراتی عمل کا پس منظر بیان کرنے کے بعد آپریشن کے آغاز کا اعلان کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ مذاکراتی ماحول اور سابقہ حکومت کے دور کے ماحول میں بڑا فرق یہ ہے کہ اس وقت کے وزیر اعظم نے تمام اسٹیک ہولڈرز اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر یہ قدم اٹھایا تھا، لیکن آج کسی کو کچھ نہیں پتہ کہ ہو کیا رہا ہے۔

انھوں نے اس بات پر حیرت کااظہار کیا کہ قومی اسمبلی یہاں تک کہ سرکاری ارکان کو نہیں پتہ کہ کون کس سے مذاکرات کررہا ہے، کن شرائط پر کررہا ہے، آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا ہے اور اس کی وجہ سے انتشار کی کیفیت ہے۔

سینئر کالم نگار کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت میں افغانستان میں پاکستان مخالف حکومت تھی اس لیے ہمیں وہاں سے حکومتی سطح پر کسی قسم کے تعاون کی امید نہیں تھی لیکن آج نسبتاً سازگار ماحول ہے ، تاہم سازگار ماحول کے باوجود موجودہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی شرائط کم و بیش وہی ہیں ۔

انھوں نے کہا کہ ایسی شرائط کو پورا کرنا حکومت کے لیے ممکن نہیں ہوتا، اگر کسی طرح سے مذاکرات کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو طالبان کے کئی دھڑے ہیں اور سب پر شوریٰ کا کمانڈ نہیں لہٰذا دہشت گردی کی کارروائیاں نہ رکنے کا خدشہ ہے۔

Comments are closed.