پاکستانی جیولر کی چائنہ بین الاقوامی درآمدی نمائش میں شرکت

49 / 100

شنگھائی (شِنہوا) ایک 40 سالہ پاکستانی جیولر احمد عقیل اپنی پانچ ماہ کی بیٹی کو سلانے کے بعد احتیاط کے ساتھ اپنا خزانہ نکالا جس میں موجود ایک چار پتیوں کا سہ شاخہ نیلم کا ہار اور کانوں کےجھمکوں کا ایک سیٹ خاص طور پر چائنہ بین الاقوامی درآمدی نمائش کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا۔

وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتا تھا کہ یہ زیورات بہترین حالت میں رہیں اور چوتھی چائنہ بین الاقوامی درآمدی نمائش کے اشیائے صارف زون کے جیولری پویلین میں اپنی نمائش کے دوران شاندار طور پر اپنی آب وتاب دکھا ئیں۔

پاکستانی جیولراحمد عقیل کاچائنہ بین الاقوامی درآمدی نمائش میں شرکت کا یہ تیسرا موقع ہے۔ احمد عقیل نے 36 مربع میٹرز کے بوتھ کے لیے درخواست دی تھی اور اپنے ساتھ چائنہ بین الاقوامی درآمدی نمائش کے لیے 36 بالکل نئی اشیاءلائے ہیں۔

سال 2019 میں اس نے پہلی مر تبہ ایک 12 مربع میٹرز کے رقبے پر محیط بوتھ کے ساتھ دوسری چائنہ بین الاقوامی درآمدی نمائش میں حصہ لیا تھا۔

اس کی نمائش میں رکھی جانے والی اشیاء اب بھی تحقیق وتیاری اور چمکانے کے مرحلے میں تھیں لیکن اس کے چھوٹے سے بوتھ کے سامنے اب بھی سیاحوں کا ایک مسلسل ہجوم موجود تھا اور پیشہ ور خریداروں نے اس کو اچھی قدر کی نگاہ سے دیکھا۔

چھ دنوں کے دوران موقع پر ہی ریٹیل آرڈرز لاکھوں یوآن تک پہنچ گئے، اس کے بعد سے ہی احمد عقیل کا جیولری برانڈ ونزا وجود میں آیا۔ تیسری چائنہ بین الاقوامی درآمدی نمائش میں اس نے 36 مربع میٹرز کے بوتھ کے لیے درخواست دی.

اس نے بہت سے پرانے اور نئے دوستوں کو دیکھنے کے لئے راغب کیا، جن میں شنگھائی کے مرکز میں واقع نیو ورلڈ ڈیمارو کے سربراہ بھی شامل تھے۔

تیسری چائنہ بین الاقوامی درآمدی نمائش ختم ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد نیو ورلڈ ڈیمارو میں باضابطہ طور پر ونزا اسٹور کھول دیا گیا اور فروخت میں توقعات سے زیادہ نمایاں حد تک اضافہ ہوا۔

احمد عقیل پاکستان کے ایک بڑے گھرانے میں پیدا ہوئے جو کئی نسلوں سے کاروبار میں مصروف ہیں۔ اپنے والد کے بعد سے یہ خاندان زیورات کا کاروبار کررہا ہے اور پاکستان میں کئی معدنیات کا مالک ہے۔

سال 2001 میں وہ تعلیم حاصل کرنے کیلئے چین آیا تھا۔ نصف سال تک زبان کی بہترین تعلیم کے بعد انہوں نے سنکیانگ میڈیکل یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔

ایک ہسپتال میں اپنی انٹرن شپ کے دوران اس کی ملاقات ایک چینی لڑکی لی ہوئی ژن سے ہوئی۔ 2010 میں لی ہوئی ژن نیول میڈیکل یونیورسٹی میں داخل ہوئی اور وہ پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کرنے شنگھائی چلی گئی ۔

احمد عقیل نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے شنگھائی میں آباد ہو نے کے لیے اس کا پیچھا کیا اور اپنی زندگی کی سمت کا ازسر نو جائزہ لینے لگا۔

احمد عقیل کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں شنگھائی ایک بڑی مارکیٹ کا حامل ایک بڑا شہر ہے ، اسی لیے یہاں زیورات کی صنعت کی ترقی کے بہت زیادہ امکانات موجودہیں، یعنی پاکستانی جیولر  چینی لڑکی کی تلاش میں شنگھائی کی بڑی مارکیٹ میں جا پہنچا ۔

احمد عقیل نے خاندانی وسائل پر انحصار کرتے ہوئے باضابطہ طور پر سال 2013 میں شنگھائی کے ایک جیولری مال میں جیولری ڈیزائن اسٹوڈیو کھولا ، لیکن اگلے سال جیولری مال ناقص انتظام کی وجہ سے بند ہو گیا۔

احمد عقیل نے کہا کہ چار پتیوں والی سہ شاخہ کو خوش قسمت سہ شاخہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ چائنہ بین الاقوامی درآمدی نمائش بلاشبہ میری زندگی کا ایک اہم موڑ ہےیہ میرے لئے خوش قسمتی لائی ہے اور اس نے میری کامیابی میں مدد کی ہے۔

انہوں نے امید ظا ہر کی کہ چوتھی چائنہ بین الاقوامی درآمدی نمائش کے اختتام کے بعد ان کے برانڈ کادوسرا اسٹور جلد از جلد کھل جائے گا تاکہ چائنہ بین الاقوامی درآمدی نمائش کے ذیلی اثرات کو وسیع تر کیا جا سکے۔

Comments are closed.