نم آنکھیں اور محسن پاکستان

50 / 100

سعید اعوان

یہ 2004 کی بات ہے۔ ایک شام اچانک ٹیلی ویژن لگایا تو سامنے ڈاکٹر عبدالقدیر خان بیٹھے ہوئے بات کرتے نظر آئے۔

فرق اتنا تھا کہ ڈاکٹر قدیر، جن کے چہرے پر ہمیشہ پراعتماد مسکراہٹ کھلی رہتی تھی، اور آنکھوں میں چمک ہوا کرتی تھی، وہی ڈاکٹر قدیر اس وقت یوں بجھے ہوئے تھے جیسے کوئی بیماری گزار کے آئے ہوں، اعتماد ان سے کہیں دور بچھڑ گیا تھا اور وہ کیمرے سے نظریں ملانے سے کترا رہے تھے۔

اس ویڈیو میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ وہی ایٹمی ٹیکنالوجی کو دنیا کے مختلف ملکوں تک پھیلانے کے قصوروار تھے اور یہ کام وہ خود اپنی مرضی سے کرتے رہے۔

پاکستان کی تاریخ میں کم ہی لوگ ایسے ہیں جو پوری قوم کے متفقہ ہیرو گزرے ہوں، لیکن اسی دیومالائی ہیرو جیسی شہرت رکھنے والے ڈاکٹر قدیر خان کی ایسی بلندی کے بعد ایسی پستی بھی تاریخ کا حصہ بن گئی ہے۔

مغرب میں منفی کردار کے طور پر جانے جانے کے باوجود وہ پاکستانیوں کے حقیقی ہیرو تھے، جنہوں نے عالمی دباؤ کی موجودگی میں پاکستان کے لیے ایٹم بم بنا کر اسے پڑوسی ملک بھارت کی کئی گنا بڑی عسکری قوت کے خلاف ممکنہ مزاحمت فراہم کی۔ 

 عبدالقدیر خان المعروف اے کیو خان متحدہ ہندوستان کی ریاست بھوپال (جو موجودہ وقت میں بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کا صدر مقام ہے) میں یکم اپریل 1936 کو سکول کے استاد عبدالغفور اور زلیخا کے ہاں پیدا ہوئے۔  

بھوپال میں ہی 1952 میں میٹرک پاس کرنے کے بعد عبدالقدیر خان پاکستان منتقل ہوئے، اور کراچی میں رہائش اختیار کی، جہاں انہوں نے 1956 میں ڈی جے سائنس کالج سے طبیعات میں گریجویشن مکمل کی۔ 

کچھ عرصہ کراچی کی شہری حکومت میں ملازمت کے بعد آپ 1961 میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے ہالینڈ چلے گئے، جہاں 1967 میں مٹیریلز ٹیکنالوجی میں ماسٹر آف سائنس (ایم ایس) کی، اور اس کے بعد بیلجئیم کی لیوین یونیورسٹی سے 1972 میں دھاتوں سے متعلق انجینیئرنگ کے شعبے میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔  

پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پہلی نوکری ایمسٹرڈیم میں فزکس ڈائنامکس ریسرچ لیبارٹری کے میں کی، تاہم جلد ہی وہ ایٹمی بجلی گھروں کے لیے جوہری ایندھن کے لیے گیس سنٹری فیوج طریقہ استعمال کرنے والے یورینکو گروپ سے منسلک ہو گئے۔

اور10 اکتوبر 2021 صبح سات بجے ڈور کٹ گئ ۔۔۔۔ محسن پاکستان کا انتقال ھو گیا بہت سے بد خواہ ھر چند دنوں بعد ان کی موت کی خبر عام کر دیتے تھے ۔۔۔ ظالموں کو احساس ھی نہیں تھا کہ وہ کس مارنے خبریں عام کرتے پھرتے ہیں وہ کوئی عام انسان بہت خاص انسان تھے
پاکستانی سائسندان اور پاکستانی ایٹم بم کے خالق تھے۔
 
یکم اپریل 1936
بھوپال  میں پیدا ھوے اور
10 اکتوبر 2021کو 85 سال کی عمر کو اسلام آباد میں وصال ھو گیا

1976ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر "انجینئری ریسرچ لیبارٹریز” کے پاکستانی ایٹمی پروگرام میں حصہ لیا۔

صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے یکم مئی 1981ء کو تبدیل کرکے ’ ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔

جدید روایتی میزائل کا معائنہ کرتے ہوئے
عبد القدیرخان پر ہالینڈ کی حکومت نے غلطی سے اہم معلومات چرانے کے الزام میں مقدمہ دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسروں نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے عبد القدیر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام کتابوں میں موجود ہیں ـ جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کردیاـ

عبد القدیرخان وہ مایہ ناز سائنس دان ہیں جنہوں نے آٹھ سال کے انتہائی قلیل عرصہ میں انتھک محنت و لگن کے ساتھ ایٹمی پلانٹ نصب کرکے دنیا کے نامور نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں کو ورطہ حیرت میں ڈالدیا۔

مئی 1998ء کو ڈاکٹر قدیر خان نے بھارتی ایٹمی تجربوں کے مقابلہ میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے تجرباتی ایٹمی دھماکے کرنے کی درخواست کی ـ

بالآخر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے دورمیں آپ نے چاغی کے مقام پر چھ کامیاب تجرباتی ایٹمی دھماکے کیے ـ

اس موقع پر عبد القدیر خان نے پورے عالم کو پیغام دیا کہ ہم نے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنادیا ہے۔
یوں آپ پوری دنیا میں مقبول عام ہوئے۔

سعودی مفتی اعظم نے عبد القدیر خان کو اسلامی دنیا کا ہیرو قرار دیا اور پاکستان کے لیے خام حالت میں تیل مفت فراہم کرنے کا فرمان جاری کیا
اس کے بعد سے پاکستان کو سعودی عرب کی جانب سے خام تیل مفت فراہم کیا جا رہا ہے۔

پرویز مشرف دور میں پاکستان پر لگنے والے ایٹمی مواد دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کے الزام کو ڈاکٹر عبد القدیر نے ملک کی خاطر سینے سے لگایا اور نظربند رہے۔

فیصل مسجد تھی اور بند دروازوں کے باوجود چاہنے والوں کا رش تھا بارش تھی مگر مجال ھیے کسی چاہنے والے کے پاوں میں لرزش ھو سب وطن عزیز کے محسن کےجنازے کے منتظر تھے مگر حیرانی تھی کہ یہ کیسا محسن ہے اس سرزمین کا کہ جس کی نماز جنازہ میں نہ صدر پاکستان،
نہ وزیراعظم پاکستان..
نہ وزیر اعلی پنجاب..
نہ وزیر اعلی خیبر پختونخواہ…
نہ وزیر اعلی بلوچستان…
اور نہ ہی مسلح افواج کے سربراہان ، نہ کوئی وزیر نہ کوئی مشیر
بس اک وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کے جو کراچی سے اسلام آباد آئے جنازہ میں شرکت کےلئے.۔آئے.

‏⁧بڑے لوگوں کے بڑے کام ہیں ڈاکٹر صاحب جاتے لمحے وفا شعاری اور بے وفائی بھی سمجھا گئے ہیں آپ نے خاموشی سے محسن کشی کے مرتکب لوگوں کے چہرے سے نقاب اتار دیا ہے.

آج آپ کے جسد خاکی کے سامنے اقرار کر رھا ھوں کہ آج سے میری اخلاقی سپورٹ بھی حکمران جماعت سے ختم کہ جو ہمارے محسنوں کا نہیں وہ ہمارا نہیں ۔ جس شخص نے ہمیں دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل کیا یہ اس شخصیت کے جنازے میں نہیں آ ۓ بہت افسوس ہے اقتدار سے چمٹے لوگو !!!

Comments are closed.