قومی بیانیہ پر حکومت یکسو اورعوامی حمایت بنیادہونی چایئے، معید یوسف

49 / 100

اسلام آباد( زمینی حقائق ڈاٹ کام )مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے کہا ہے کہ بیانیہ تخلیق کرنے کے لیے کچھ بنیادی پیشگی شرائط درکار ہوتی ہیں جن میں ایک پوری حکومت کا یکساں موقف ہونا ہے قومی بیانیہ کو اگر عوام کی حمایت نہ حاصل ہو تو اسے حاصل نہیں کیا جاسکتا.

اسلام آباد میں قومی بیانیہ سے متعلق سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے معید یوسف نے کہاکہ پاکستان کو معذرت خواہانہ انداز ترک کرکے اپنا بیانیہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے اور ہمارا بیانیہ غیر واضح نہیں ہونا چایئے۔

معید یوسف کا کہنا تھا ہمارے پاس اصل میں ایک کہانی ہے جو قابل یقین، منطقی اور سچی ہے، جسے ہمیں دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے تاکہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ ہم کون ہیں اور ہم کس کے لیے کھڑے ہیں ان مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے جو ہم نے شناخت کیے۔

معید یوسف نے کہا سب سے اہم چیز جس نے مجھے سب سے زیادہ پریشان کیا اور اب بھی کرتی ہے وہ پاکستان میں رابطے کے طریقوں میں، مقامی سے زیادہ عالمی، غیر معذرت خواہانہ طور پر اپنا نقطہ نظر پیش کرنے میں شرمانے کا عنصر ہے.

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے شرمانے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیوں کہ ہمارے پاس کچھ چھپانے کے لیے نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہم نے پاکستان سے متعلق مغربی بیانیہ کو اس حد تک جذب کر لیا ہے کہ اندرونی طور پر بھی یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا پاکستان کا بیانیہ درست ہے؟

مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ یہ ان کے لیے سر چکرانے والی صورتحال ہے کیوں کہ ان کے مطابق پاکستان کے پاس یہ بتانے کے لیے ایک حقیقی کہانی تھی کہ ملک کیا کر رہا تھا اور کس کے لیے کھڑا تھا اور اس کے لیے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی کوئی وجہ نہیں.

اس موقع پرانہوں نے سوال کیا کہ جب پاکستان کے پاس سنانے کو کہانی ہے اور جانتا تھا کہ اسے کیسے بتانا ہے تو پھر جذباتی نہیں بلکہ زیادہ غیر معذرت خواہانہ طور پر یہ بات چیت کیوں نہیں کی گئی کہ واضح کیا جائے کہ پاکستان فلاں فلاں کام کرنے جا رہا ہے کیونکہ یہ ہمارے اسٹریٹجک مفادات میں ہے۔

معید یوسف نے کہا کہ پاکستان جدید پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا جیسے ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے تیز رفتار اسٹریٹجک مواصلات میں دوسرے ممالک سے پیچھے تھا انہوں نے کہا کہ کسی حد تک شاید آج بھی تعلقات عامہ کی ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں کہ پریس ریلیز اور چیزوں کا اپنے وقت پر جواب دینا.

معید یوسف نے کہا ایک اور مسئلہ اپنی زبان دوسروں سے بولنا اور دوسروں سے اسے سمجھنے کی توقع کرناہے ہر موقع پر ہر سامعین کے سامنے ایک ہی بیانیہ اور گفتگو کے نکات ہر جگہ استعمال نہیں کیے جا سکتے انہوں نے کہا کہ مواد سے ہٹ کر یہ بھی اہم ہے کہ کون اسے پہنچا رہا ہے اور کس طرح پہنچا رہا ہے۔

مشیر قومی سلامتی نے ایک اور مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے سوال کیا کہ پاکستانیوں کی آواز کیوں زیادہ کیوں نہیں سنی جا رہی اور کیوں زیادہ لوگ اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں لکھ رہے یا پیش نہیں کر رہے، پاکستان کو سمجھنے والے کتنے پاکستانی اہم دارالحکومتوں میں تھنک ٹینکس میں شامل ہیں؟

انہوں نے کہا کہ باہر کے نقطہ نظر کے بجائے ملک کے مقامی اور اندرونی تناظر کو سمجھنے والے افراد کی ضرورت ہے، مغربی دنیا نے 20 سال سے پاکستان کی ایسی تصویر پیش کی ہے جیسے پاکستان افغانستان میں کسی حل کے بجائے مسئلہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ اب جو کچھ افغانستان میں ہوچکا اس کے بعد بھی اگر مغربی لوگوں سے بات کریں تو انہوں نے یہ بیانیہ اپنے لیے اتنی مرتبہ دہرالیا ہے کہ وہ اسے حقیقت مانتے ہیں اور آپ چاہے کچھ بھی کرلیں دوسرے فریق کو سمجھانا ورچوئلی نا ممکن ہے.

میرے لیے سوال یہ نہیں ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا اس سے کچھ کیوں نہیں سیکھا؟ وہ زیادہ انصاف پسند کیوں نہیں؟ وہ پاکستان کے ساتھ منصفانہ کیوں نہیں؟ بلکہ مجھے جس سوال کا جواب دینا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے بہتر کیوں نہیں کیا انہوں نے کہا کہ مسئلہ کیا ہے؟ ہمارے ملک کی حقیقت ویسی کیوں پیش نہیں کی جاتی جیسی کی جانی چاہیے؟

پاکستان دورے کے بعد واشنگٹن پہنچنے والوں کاموقف بدل جاتاہے

انھوں نے واشنگٹن میں سابق سفیر سے ایک ملاقات کا احوال سناتے ہوئے بتایا کہ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ جب کوئی واشنگٹن سے پاکستان آکر واپس جاتا ہے تو اس کا پاکستان کے حوالے سے بیانہ مختلف ہوتا ہے، وہ بہت منفی اور حقیقت سے دور چیزیں سوچ کر آتے ہیں۔

وہی لوگ جب واپس جاتے ہیں کہتے ہیں یہ بالکل مختلف ہے میری آنکھیں کھل گئیں معید یوسف نے کہا کہ حقیقت اور تاثر کا یہ وہ فرق ہے جس سے ہم نبرد آزما ہیں انھوں نے کہا کہ وہ ایک واحد بیانیہ کی کوشش کرنے پر یقین نہیں رکھتے، بیانیہ ہمیشہ حقیقت کا عکاس ہونا چاہیے۔

مشیر قومی سلامتی نے کہا پاکستان اور دیگر ممالک کس طرح بھارت کی جانب اشارہ کرتے ہیں، اس میں فرق ہے انہوں نے کہا کہ ہمارا ماڈل ہماری صحیح حقیقت کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے جبکہ ان کا ماڈل دوسروں کو بدنام کرنے کے لیے جعلی خبروں کا ایک پورا عالمی نیٹ ورک بنانا ہے۔

معید یوسف نے کہا جب آپ برطانیہ میں اڑتے ہوئے طیاروں کو پنجشیر میں پاکستان کے طیاروں کی طرح اڑتے ہوئے دکھائیں گے تو اس کے لیے آپ کو بدنام اور شرمسار کیا جائے گا۔

ان کا کہناتھا کہ انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ ہر ناقد کو شکست ہوگی افغانستان کی طرح کوئی ایک بھی ایسی چیز نہیں ہے جس سے پاکستان دنیا کو آگاہ نہ کر رہا ہو اور ایسی کوئی چیز نہیں جس کے بارے میں ہمیں معذرت خواہ ہونا چاہئے یا اس سے باز رہنا چاہیے.

Comments are closed.