امریکا کا ساتھ دینے پر پشتون پاکستان کے خلاف ہوئے، عمران خان

49 / 100

اسلام آباد( زمینی حقائق ڈاٹ کام)وزیر اعظم عمران خان دنیا کو اس لئے افغانستان کے ساتھ دینا چاہیے کیونکہ اگر وہ اسے تنہا ہو گئے تو طالبان تحریک کے اندر سخت گیر لوگ موجود ہیں اور یہ آسانی سے 2000 کے طالبان کے پاس واپس جا سکتا ہے اور یہ ایک تباہی ہو گی۔

وزیراعظم عمران خان نے غیر ملکی نیوز ایجنسی مڈل ایسٹ آئی کو انٹرویو میں ایک بار پھرکہا کہ امریکا کو افغانستان کو امدادی پیکج دینا ہوگا یا کسی ایسے ملک کے خاتمے کا سامنا کرنا پڑے گا جو داعش کے عسکریت پسندوں کی پناہ گاہ بن جائے گا۔

وزیراعظم نے کہا واشنگٹن اس چیلنج کو پورا کرے کیونکہ ملک، جہاں امریکا کی زیرقیادت دہشت گردی کے خلاف جنگ سے منسلک تنازع میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے ہیں، ایک بار پھر بھاری قیمت ادا کرے گا یہ عمل پاکستان کے بھی مفاد میں ہے۔

عمران خان نے اس موقع پر امریکن کے ساتھ بھی ہمدردی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعی نازک وقت ہے اور امریکا کو خود کو اکٹھا کرنا ہوگا کیونکہ امریکا میں لوگ صدمے کی حالت میں ہیں۔

وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ افغانستان میں لوگ کسی طرح کی جمہوریت، قوم کی تعمیر یا آزاد خواتین کا تصور کر رہے تھے اور اچانک انہیں معلوم ہوا کہ طالبان واپس آگئے ہیں اس لیے ان میں بہت غصہ، صدمہ اور حیرت ہے۔

انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ جب تک امریکا قیادت نہیں کرے گا ہم پریشان ہیں کہ افغانستان میں افراتفری ہوگی اور ہم اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے میں اسی لئے بھی افغانستان میں امن استحکام دیکھنے کا حامی ہوں۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ امریکا کے پاس افغانستان میں مستحکم حکومت کی حمایت کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں تھا کیونکہ طالبان ہی خطے میں داعش سے لڑنے کا واحد آپشن تھے۔

انھوں نے کہا کہ افغانستان میں داعش کی علاقائی وابستگی جسے اسلامک اسٹیٹ صوبہ خراسان کے نام سے جانا جاتا ہے، نے طالبان کے خلاف لڑائی کی ہے اور حالیہ مہلک حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ دنیا کو اس لئے بھی افغانستان کے ساتھ مشغول ہونا چاہیے کیونکہ انھیں اعتدال پر قائم رکھنے کیلئے ایسا کرنا ضروری ہے ورنہ طالبان تحریک کے اندر سخت گیر لوگ موجود ہیں جو مایوسی میں غلط فیصلے کر سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ طالبان اب بھی امریکی محکمہ خزانہ کے پابندیوں کی فہرست میں شامل ہیں جو اس گروپ کو امریکی سینٹرل بینک میں موجد 9 ارب ڈالر سے زائد کے اثاثوں تک رسائی سے روکتے ہیں حالانکہ خو د طالبان حکومت بھی امریکہ سے اپیل کر چکی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر متنازع علاقہ ہے ، کشمیر میں 9 لاکھ بھارتی فوج نے 80 لاکھ کشمیریوں کو کھلی جیل میں رکھا ہوا ہے ، وہاں انسانی حقوق کی صورتحال بد ترین ہے۔

عمران خان نے کہا مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین صورتِ حال پر اقوام متحدہ نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں، شاید مقبوضہ کشمیر جیسی بدتر صورتِ حال کہیں بھی نہیں ، کشمیریوں کو فیصلہ کرنے دیا جائے کہ پاکستان یا بھارت کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔

انھوں نے یہ بھی واضح کیاکہ امریکا کا ساتھ دینے پر پشتون پاکستان کے خلاف ہوئے، ریاست پر حملے کیے، اب امریکا علاقے سے نکل گیا ہے، پشتونوں سے لڑائی میں کسی کے اتحادی نہیں رہے، کسی کا ساتھ نہیں دے رہے، اب اُن کی جارحیت بھی کم ہوگئی ہے۔

ٹی ٹی پی سے بات سے متعلق عمران خان نے کہا کہ مصالحت کی کوشش ان سے کررہے ہیں جو ہتھیار پھینکنے کے لیے تیار ہیں ، جو نہیں مانیں گے حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے گی، پاکستان میں کسی کو اڈے دینے کی ضرورت نہیں کیوں کہ ہم دوبارہ کسی تنازع کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں خانہ جنگی سے بہت تباہی ہوئی ہے لیکن افغان طالبان نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ ان کی سرزمین سے کسی کو بھی پاکستان پر حملے کی اجازت نہیں دیں گے، یہ بھی کہ داعش سے چھٹکارا پانے کے لیے طالبان واحد اور بہترین آپشن ہیں۔

Comments are closed.