پرویز مشرف خواتین کو انٹرویوز دیتے رہے مجھے نہیں دیا، انور مقصود

55 / 100

اسلام آباد( ویب ڈیسک )مزاح نگار اور سینئررائٹر انور مقصود نے کہا ہے کہ میرے جتنے بھی مشہور اور اچھے ڈرامے تھے وہ جنرل ضیا الحق کے دور میں تھے،جب کہ جنرل پرویز مشرف نے انہیں انٹرویو نہیں دیا، انہوں نے تمام خواتین کو انٹرویوز دیئے،میں نے پرویز مشرف کو پیغام بھجوایا کہ انور مقصود دوپٹہ پہن کر ان کا انٹرویو کریں گے۔

انورمقصود کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ بعد سابق آرمی چیف پرویز مشرف ان کے گھر آئے اور انہیں بتایا کہ ان کا پیغام انہیں ملا تھا، پرویز مشرف نے انہیں بتایا کہ وہ انہیں انٹرویو نہیں دیں گے، البتہ وہ ان سے باتیں ضرور کریں گے، کیوں کہ ڈراما ساز اچھی باتیں کرلیتے ہیں۔

انور مقصود نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں کہا کہ مجھے مذکورہ ڈراموں پر اعتراض ہے مگر کیا کریں کہ آج کل ڈرامے میں جتنی بیہودگی ہوگی، اس کی اتنی ہی زیادہ ریٹنگ آتی ہے، انٹرویوکے دوران انھوں نے ماضی کی ڈرامہ کہانیوں کا بھی ذکر کیا۔

انور مقصود کاکہنا تھاکہ بہت ڈرامے لکھنے کے باوجود کوئی کتاب نہیں لکھی نہ ہی لکھنے کاارادہ ہے کیونکہ میرے پاس مقدس کتاب قرآن مجید دیوان غالب، کلیات میر اور علامہ اقبال کی کتاب موجود ہیں اور ان ہی کتابوں کی وجہ سے انہیں کبھی کتاب لکھنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔

انھوں نے کہا کہ ممکن ہے میرے ڈراموں پر مبنی کوئی کتاب مارکیٹ میں ا ٓ جائے کیونکہ بعض لوگوں نے مواد اکٹھا کرنے کا کہاہے لیکن میں خود ایسا نہیں کررہا ہوں، انہوں نے چند لوگوں کو ڈراما سازی سکھانے کا کام بھی کیا مگر جلد ہی ان پر انکشاف ہوا کہ وہ جنہیں سکھا رہے ہیں وہ تو ان سے زیادہ جانتے ہیں۔

ڈرامہ میں اتنی بہودگی آگئی ہے کہ دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتا

مزاح نگار اور سینئررائٹر انور مقصود نے بھی معروف ڈرامہ رائٹر خلیل الرحمان قمر کی طرح ڈرامہ کے بہودہ موضوعات پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہا آج کل کے ڈرامے میں اتنی بہودگی آ گئی ہے کہ میں انھیں دیکھنا تک گوارہ نہیں کرتا۔

سینئر ڈرامہ رائٹر نے واضح کیا کہ میراکوئی بھی ٹوئٹر اکاونٹ نہیں ہے جب کہ میرے نام سے متعدد اکاونٹس چلائے جا رہے ہیں، جن میں سے بعض اکاونٹس کی توسط سے وزیر اعظم عمران خان سے بھی رابطہ کیا گیا، ٹوئٹر میرے نام سے ٹویٹس بھی ہو رہے ہیں۔

انور مقصود نے بتایا کہ وہ اپنے بیٹے گلوکار بلال مقصود کے لیے گیت لکھتے ہیں اور ان کے کچھ گانے بولی وڈ فلموں میں بھی شامل ہیں جب کہ انہوں نے ایک آدھ فلم بھی لکھی، انہوں نے انکشاف کیا کہ اداکار معمر رانا اور جیا علی کی ایک فلم میں کہانی کار میں ان کا نام آتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ درحقیقت اس کی کہانی انہوں نے نہیں بلکہ سید نور نے لکھی ہے،انھوں نے کہا کہ حالیہ ڈرامے پسند نہیں ہیں ،انور مقصود نے
کسی بھی ڈرامے یا لکھاری کا نام لیے بغیر یہ اعتراف بھی کیا کہ انہیں جن ڈراموں پر اعتراض ہے، وہ مشہور بھی ہوتے ہیں اور انہیں دیکھا بھی جاتا ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ آج کل ڈرامے میں جتنی بیہودگی ہوگی، اتنی ہی زیادہ اس کی ریٹنگ آئے گی، جتنا فضول جملہ ہوگا، اتنا اسے پسند کیا جائے گا اور کوئی ٹی وی میزبان اپنے مہمان کے ساتھ جتنی بدتمیزی کرے گا، اس پروگرام کی اتنی زیادہ ریٹنگ آئے گی۔

میڈیا میں ریٹنگ کے آنے سے کافی چیزیں تبدیل ہوئی ہیں، انور مقصود نے بتایا کہ انہوں نے کیریئر کا آغاز بطور اداکار کیا تھا مگر جب وہ اداکاری میں آئے تو انہوں نے سوچا کہ انہیں اداکاروں کے لیے لکھنا چاہیے، جس کی وجہ سے وہ لکھاری بن گئے۔

ایک سوال کے جواب میں بتایاکہ انہوں نے اپنے مقبول ڈرامے ستارہ اور مہرالنسا کے ایک مرد کردار کے لیے بہت سارے اداکاروں سے رابطے کیے مگر ہر کسی نے مختصر کردار کی وجہ سے کام سے انکار کیا، جس کے بعد انہوں نے وہ کردار خود ادا کیا۔

انور مقصود نے یہ بھی انکشاف کیا کہ جنرل ضیا الحق نے ان کے مقبول کامیڈی شو ففٹی ففٹی کی تمام ٹیم کو ایوارڈز دیے مگر انہیں نہیں دیا، اس دور کے ایم ڈی جو اس وقت جنرل ضیا کے انفارمیشن سیکریٹری بھی تھے، سے استفسار کیا تھا کہ انہیں ایوارڈ کیوں نہیں دیا گیا؟

شہرہ آفاق ڈرامہ ففٹی ففٹی کے رائٹر نے بتایا کہ مجھے ایم ڈی نے بتایا کہ کامیڈی شو میں تو لکھاری کا کوئی کام ہی نہیں ہوتا، ساری محنت اور کام اداکاروں کا ہوتا ہے، جس وجہ سے انہیں ایوارڈ نہیں دیا گیا،ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ واقعے کے بعد ہی انہوں نے ففٹی ففٹی کو بند کیا تھا۔

اپنے مقبول ڈرامے آنگن ٹیڑھا کا ذکر کرتے ہوئیانور مقصود نے ایک واقعہ بتایا کہ مذکورہ ڈرامے کا ایک جملہ آن ایئر ہونے پر ہنگامہ ہوگیا تھا، ڈرامے میں چوہدری نامی ایک کردار دوسرے کردار اکبر کو بتاتا ہے کہ پاکستان میں جس کو انگریزی آتی ہے، وہ کبھی بھوکا نہیں مرے گا۔

Comments are closed.