ارشاد بھٹی ایک نان کو ترستا ، سبزی بیچتا اور تھڑوں پر سوتا تھا

55 / 100

اسلام آباد( زمینی حقائق ڈاٹ کام) معروف صحافی اور تجزیہ کار ارشاد بھٹی کے جذباتی انٹرویو نے ہلچل مچا دی اپنے انٹرویو میں کالم نگار ارشاد بھٹی کہتے ہیں میرے پاس پہننے کیلئے کپڑے اور کھانے کیلئے ایک نان بھی نہیں تھا، میں نےفٹ پاتھوں پر سو کر وقت گزارا ہے اور زندگی میں بہت برے دن دیکھے ہیں۔

ارشاد احمد بھٹی نے جاوید چوہدری کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں اپنی کسمپرسی کی داستان سنا کر سب کو حیران کردیا ہے انھوں نے کہا کہ لوگ اپنےبرے دن چھپاتے ہوں گے لیکن مجھے فخر ہے کہ میں بہت نیچے سے اوپر آیا ہوں میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ یہ مقام حاصل کرلوں گا۔

معروف صحافی کہتے ہیں میں کبھی فاقے سے کسی امتحان سے نہیں ڈرا ، میں نے اسکول کی ایک یونیفارم کئی سال پہنی ، جوتوں کاایک جوڑا تھا، ایک روپے کے پکوڑے اور ایک روپے کا نان سارے بچے کھاتے تھے اور میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ کوئی ایسا دن آئے گا کہ میں بھی نان اور پکوڑے کھاوں گا۔

انھوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میں پنڈیاں بھٹیاں سے آگے چنیوٹ روڈ پر ایک گاوں ہے، مچھو نیکا ، میں وہاں پیدا ہوا، اسکول دور میں ہی میری والدہ32سال کی عمر میں جب وفات پا گئیں تو مجھ سے چھوٹی ایک بہن کو خالہ بھائی کو نانی لے گئیں جب کہ میں دادیال میں رہ گیا۔

ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ میری والدہ کی وفات کے چار سال بعد میرے والد نے دوسری شادی کرلی میں نے اپنی دوسری ماں کی بڑی خدمت کی لیکن میری ماں ویسی ہی نکلی جیسے سوتیلی ماں ہوتی ہے۔میں نے بہت فاقے کاٹے ، اسکول کی فیس دینے کیلئے چوتھی کلاس میں تھا جب ٹافیاں بیچ کر فیس اد کی۔

اسکول میں بیٹھنے کیلئے میرے پاس بوری نہیں ہوتی تھی، سلیٹ اور قاعدہ تک نہیں تھے، جب ماں مرجائے اور باپ دوسری شادی کرلے تو پھر بچے کیلئے عجیب سی جو کیفیت ہوتی ہے میں ان سے گزرا ہوں جب کہ میر ی دوسری ماں سے میرے بھائیوں نے سکون کی زندگی گزاری میرے آج ان سے اچھے تعلقات ہیں۔

ارشاد بھٹی نے بچپن کا ایک اور قصہ سناتے ہوئے کہا کہ اسکول دور میں میر ی یونیفارم دو جگہ سے پھٹ گئی اور اتنی زیادہ کے چھپ نہیں سکتی تھی تو میں رضائی کا ، اچھاڑ، پہن کرچار دن سکول جاتارہا تاکہ کسی کو پھٹی کپڑے نظر نہ آئیں ، کوئی پوچھتا تو کہتا تھا کہ بیمار ہوں ڈاکٹر نے کہا کہ سردی سے بچنا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ جب میٹرک میں تھا تو ماں نہ ہونے اور گھر میں قدر نہ ہونے کی وجہ سے سارے لوگ کہتے تھے یہ بھی پاس ہوجائے گا؟ارشاد بھٹی کے مطابق ان کے گاوں میں 20کلاس فیلو تھے اور وہ سب میٹرک میں فیل ہو گئے اورمیں فرسٹ پوزیشن لے کر کامیاب ہوگیا۔

انھوں نے بتایا کہ مجھ میں شعور کی کمی تھی اور تھی اسی لئے میٹرک کے بعد میں سمجھا میری تعلیم مکمل ہو گئی ہے۔اس وقت میں گاوں میں پولیس والے ایک سپاہی، پٹواری اور جی ٹی ایس کے ڈرائیور سے متاثر تھا تو میں یہی سوچتا تھا کہ میں ان ہی کی طرح کچھ بنوں گا۔

میٹرک کے بعد مجھے ایک کزن نے آگے پڑھنے کیلئے لاہور بلا لیا جہاں میں مختلف کام بھی کرتا رہا اور تعلیم بھی حاصل کی۔اس دوران میں نے گھر کے سارے کام بھی سیکھ لئے، آٹا گوندنا، روٹی پکانا، ترکاریاں پکانا۔ جھاڑو دینا ہر کام میں کرلیتا تھااور چھوٹی چھوٹی نوکریاں کرتے ایف اے ، بی اے اور ایم اے کیا۔

لاہور میں قیام کے دوران بھی میں نے سبزی کی ریڑھی بھی لگائی۔ فٹ پاتھوں پر ۔ سڑکوں ۔ پارکوں اور بنچوں پر بھی راتیں سو کر گزاریں ۔ اس دوران ہی میرے ذہن میں خیال آیا کہ اسلام آباد چلا جاوں وہاں میری کسمپرسی دیکھنے والا علاقے کا کوئی بندہ نہیں ہوگا بس یہی سوچ کر اسلام آباد چلا آیا۔

http://An Emotional Story of Irshad Bhatti | Javed Chaudhry | SX1L

ارشاد بھٹی نے بتایا کہ میں1995میں اسلام آباد آیا تومیری جیب میں صرف150روپے تھے میں نے ایک رات ستارہ مارکیٹ کے ستارہ ہوٹل میں گزاری تھی تو سوروپے خرچ ہو گئے ، اس سے اگلی رات ستارہ مارکیٹ کے قریب ہی سرائے میں گزاری ۔ میں اب بھی بچوں کو بتاتا ہوں کہ یہ تمہارے ابوکا پہلا ٹھکانا تھا ۔

Comments are closed.