ماحولیاتی مسائل سے آگاہی کا فقدان

دلاور خان تنولی

ماحولیاتی مسائل کی نوعیت کچھ اس طرح کی ہے کہ ان مسائل کی منفی اثرات فوری طور پر ہمیں نظر نہیں آ رہے ہوتے۔ میں اس بات کی وضاحت کچھ مثالوں سے کروں گا، سب سے پہلے ہم پانی کی قلت کو لیتے ہیں، پانی کی کمی کبھی بھی دنوں یا مہینوں میں ظاہر نہیں ہوتی.

بلکہ جب کئی سال غیر ذمہ داری کے گزر جاتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کئی ندیاں اور کنویں خشک ہو گئے ہیں اورجب 80 فٹ سے نکلنے والا پانی 300 فٹ زمین کے اندر سے بھی نہیں ملتا۔ مگر جب ہمیں پتہ چلتا ہے تو اس وقت ان کو واپس اپنی پہلے والی حالت میں لے کر آنا نا ممکن ہوتا ہے۔

اس طرح جب ہم اپنے گھروں اور کارخانوں کے کچرے کو کسی بھی جگہ پر پھینک دیتے ہیں تو ہمیں فوری طور پر اس کا کوئی نقصان نظر نہیں آ رہا ہوتا ہے مگر کچھ عرصے بعد ہمارے ارد گرد کچرے اور گندگی کے ڈھیر جمع ہو جاتے ہیں۔

ایک اور مثال جنگلی حیات کی لے لیتے ہیں،کسی خاص علاقے میں لوگ غیر قانونی شکار کرتے رہتے ہیں اور جنگلوں میں آگ لگاتے رہتے ہیں تو اس علاقے میں کچھ سالوں کے بعد جنگلی حیات (چرند پرند) نا پید ہو جاتے ہیں۔

آج عوام کو ماحولیاتی مسائل، ان کی ممکنہ تباہکاریوں اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس تقریباََ نہ ہونے کے برابر ہے اور اس وقت اس بات کی اشدضرورت ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو ماحولیاتی مسائل کی آگاہی اور اپنی ذمہ داری کا اچھی طرح سے پتہ ہو۔

لوگ اس بات سے تقریباََ بے خبر ہیں کہ ہمارے موجودہ غیر ذمہ دارانہ رویوں کی وجہ سے آنے والی نسلوں کو کن مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔جی ہاں اگرہمارا ایسا ہی رویہ رہا تو وہ وقت دور نہیں کہ پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہوگا، پہاڑوں کا قدرتی حسن ختم ہو جائے گا، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر ہوں گے، موسم غیر متوقع طور پر گرم ہو گا اور یہاں تک کہ ہوا بھی آلودہ ہو جائے گی۔

آ ج ہم اپنے صاف پانیوں کو اپنے ہاتھوں سے آلودہ کر رہے ہیں، کسی بھی قسم کا کچرا اور گندگی یہاں تک کے بچوں کے ڈائپرز بھی پانی میں بہا دیتے ہیں، مچھلیوں کو کرنٹ اور دوسرے ممنوعہ طریقہ سے ختم کر رہے ہیں، چرند و پرند کا خاتمہ غیر قانونی شکار اور جنگلات میں آگ لگا کر کررہے ہیں.

درختوں کو بے دریخ کاٹ رہے ہیں، چراہ گاہوں اور سبزا زاروں پر غیر قانونی تعمیرات کررہے ہیں، پلاسٹک کا بلاخوف استعمال کر رہے ہیں۔ یہ سب اگر ہم نہیں کر رہے تو یہ سب ہوتے ہوئے خاموشی سے دیکھ ضرور رہے ہیں۔

وقت کا تقاضا ہے کہ ان سب اقدامات سے ہم خود بھی رکیں اور دوسرو ں کو بھی روکیں۔ اس کے لیے ہمیں علاقائی سطح پر عملی اقدامات کرنے ہوں گے، ہمیں اپنی مساجد کے ممبر سے عبادات کے ساتھ ساتھ معملات پر بھی بات کرنی ہوگی او رلوگوں کو ماحولیاتی ذمہ داریوں کا احساس دلانا ہوگا۔

ہمیں اپنے پرائمری اسکولوں کے اساتذہ کی بھی تربیت کرنی ہوگی تا کہ وہ بچوں میں ماحولیاتی ذمہ داریوں کا احساس پیدا کر سکیں کیونکہ بچے ماحول کی بقا کے لیے بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ غرضیکہ ہمیں ہر سطح پر عوام میں آگاہی پھیلاناہو گی.

ماحول کا تحفظ اور بقا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔ ہمیں متعلقہ سرکاری اداروں سے بھی تعاون کرنا ہو گا اور ماحول کو تباہ اور برباد کرنے والے عناصر کی نشاندہی کرنی ہوگی تاکہ آنے والی نسلیں قدرتی وسائل سے استفادہ کر سکیں اور ہمیں اچھے الفاظ میں یاد رکھیں۔

Comments are closed.