طالبان کا خوف…امریکہ خود بھی گھبرانے لگا

کابل سمیت افغانستان کے متعدد صوبوں پر طالبان کے قبضے کے خوف و حراس کے بعد افغان شہریوں کے علاوہ اب امریکہ خود بھی گھبرانے لگا ہے۔ امریکہ نے تین ہزار فوجی اپنے سفارتی عملے کو باحفاظت نکالنے اور انکی حفاظت کیلئے افغانستان پہنچا دیئے ہیں۔ افغانستان میں امریکی سفارتخانے کی عمارت پر لہرائے جانے والا امریکی جھنڈا بھی اتار لیا گیا ہے اور کابل میں موجود امریکی سفارتخانے کو ائیر پورٹ پر منتقل کر دیا گیا ہے۔

طالبان نے جب تمام سمتوں سے دارالحکومت کابل میں داخل ہونا شروع کر دیا ہے۔ اس صورت حال کے سبب لوگ خوف کے مارے بینکوں سے اپنے مالی رقوم نکلوانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے دعوی کیا تھا کہ کابل بھی ایک دو ماہ میں طالبان کے قبضے میں جا سکتا ہے۔مگر یہاں حالات مختلف رہے ہیں کیوں کہ طالبان کابل میں داخل ہوچکے ہیں ۔ ہزاروں افراد نے دیگر علاقوں سے جان بچا کر دارالحکومت کابل کا رُخ کیا تھا۔

اب ان کے لئے کابل بھی محفوظ شہر نہیں رہا۔ دارالحکومت میں آنے والے ان پناہ گزینوں میں سے بیشتر رات خالی عمارتوں میں یا فٹ پاتھوں پر گزارتے ہیں۔انھیں اپنی بنیادی ضروریات جیسا کہ ادویات، خوراک اور رہائش کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے پاس یہاں آنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ایسے ہی ہزاروں پناہ گزین شہر کے مضافات میں واقع عارضی کیمپوں میں مقیم ہیں۔

رواں سال میں افغانستان سے غیرملکی فوجیوں کے انخلا کے اعلان کے ساتھ ہی فلاحی اداروں نے افغانستان میں بے گھر افراد کی تعداد میں اضافے کا انتباہ دیا ہے۔ سنہ 2012 میں افغانستان جانے والے بیشتر غیر ملکی فوجی اب ملک چھوڑ چکے ہیں جبکہ افغانستان میں حکومتی افواج اور طالبان کے درمیان لڑائی کی شدت میں کمی آ گئی ہے۔ طالبان اب تک ملک کے 34 صوبائی دارالحکومتوں میں سے 25 کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں.

مزید صوبوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایسی خبریں لوگوں کو کابل کی جانب نقل مکانی پر مجبور کر رہی تھیں ۔ ۔ دنیا بھر کے ممالک کی جانب سے جہاں افغانستان میں موجودہ صورتحال کے فوری حل پر زور دیا جا رہا ہے وہیں افغان عوام سے انکی ہمدردی اور افغان مہاجرین کو پناہ کی پیش کش بھی کی جا رہی ہے۔

امریکی صدر بار بار اس بات کو واضح کر چکے ہیں کہ وہ ایک امریکی نسل کو اس جنگ میں نہیں جھونک سکتے اسی لئے انہوں نے فوجیں واپس بلائیں۔ افغانستان میں طالبان کی جانب سے قبضے کے خوف سے خود افغان صد ر اشرف غنی بھی فرار ہو چکے ہیں جس کے بعد عوام میں بھی خوف کی فضاء بڑھ چکی ہے۔ اس سے قبل افغان حکومت طالبان کو ملکر حکومت کرنے کی پیش کش بھی کرتی چلی آرہی تھی۔

افغان طالبان کی جانب سے عوام کیلئے جو حوصلہ افزا بات سامنے آئی ہے وہ حال ہی میں افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کی جانب سے ٹی وی چینل کو دیا گیا ایک انٹرویو اور وضاحتیں ہیں افغان طالبان نے واضع کیا ہے کہ شہریوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ کابل کے شہریوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ان کی جائیدادیں اور ان کی زندگیاں بلکل محفو ظ ہیں۔ وہ لوگ کسی سے بھی انتقام لینے کا ارادہ نہیں رکھتے؟

افغان طالبان کی جانب سے مزید اس بات کی بھی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ وہ خواتین کے حقوق میڈیا کے نمائندوں اور سفارتکاروں کی آزادی کے تحفظ کی بھی مکمل یقین دہانی کرواتے ہیں۔ دوسری جانب سابق افغان صدر حامد کرزئی بھی اس حوالے سے کردار ادا کرنے کیلئے سامنے آئے ہیں اوہ ایک ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ مکمل پرامید ہیں.

موجودہ صورتحال امن مذاکرات کے ذریعے حل ہو جائے گی۔ شہری اپنے گھروں میں پرسکون رہیں۔صورتحال کو قابو میں رکھنے کیلئے افغانستان میں رات کا کرفیو بھی نافذ ہے۔ انخلا کے باوجود اقوامِ متحدہ کے مطابق لڑائی میں ایک ہزار سے زیادہ شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔

Comments are closed.