ہزارہ کے3اضلاع میں بہتا’مانگل’نالہ کا پانی زہریلہ ہونے لگا

محبوب الرحمان تنولی


اسلام آباد: ہزارہ ڈویژن کے تین اضلاع کی حدود میں بہتے صاف پانی کے نالہ "مانگل” کا پانی خطرناک حد تک آلودہ ہو گیا،پولٹری فارمز کی گندگی اورایوب میڈیکل کمپلیکس کا فضلہ شامل ہونے کے باعث ، مانگل ، کا زہر آلود پانی واٹر سپلائی اسکیموں کے زریعے کئی دیہات میں مہلک امراض کا باعث بن سکتا ہے۔

"مانگل”کا منبہ ایبٹ آبادکا پہاڑی علاقہ بانڈہ پیر خان، ترنوائی اور دیگر پہاڑی سلسلہ کے سنگلاخ پہاڑ ہیں جن کا پانی جوں جوں آگے چلتاہے تو اس میں مزید چھوٹے چھوٹے پانی کے نالے شامل ہوتے جاتے ہیں، حسینیاں کے قریب پہنچ کر یہ پانی بڑی ندی بن جاتاہے۔

مانگل نالہ کی سیٹلائیٹ سے کی گئی منظر کشی

یہ نالہ’مانگل”ایبٹ آباد کی حدود سے شروع ہوتا ہے حسینیاں کے مقام پر پہنچ کر ضلع مانسہرہ کی حدود میں شامل ہوجاتاہے جب کہ آگے چل کریہ دو اضلاع مانسہرہ اور ایبٹ آباد کی حد بندی لائن بھی بن جاتی ہے اور مزید آگے جا کر ضلع ہری پور میں پہنچ کر سیری شاہ کے قریب تربیلا جھیل میں شامل ہو جاتی ہے۔

حسنیاں کے مقام پر ‘مانگل’کے پانی پر گاوں کریڑ کیلئے واٹر سپلائی اسکیم ہے جس سے تقریباٰ پانچ ہزار نفوس کی آبادی کو پانی سپلائی ہوتا ہے جب کہ اس سے آگے اور پیچھے بھی کئی دیہات اس صاف پانی کے ذخیرہ سے پانی پینے کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں فصلوں کیلئے بھی رخ موڑتے ہیں۔

اس حوالے سے جب ایبٹ آباد کے ڈپٹی کمشنرکیپٹن ریٹائرڈ ندیم ناصر کے نوٹس میں مانگل کی آلودگی اور اسپتالوں کے فضلہ شامل ہونے سے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ میرے نوٹس میں یہ بات پہلے نہیں تھی ، میں اس معاملے کی فوری انکوائری کرواتا ہوں تاکہ صورتحال سامنے آسکے انھوں نے ایوب میڈیکل کمپلیکس حکام سے بھی بات کرنے کی یقین دہانی کروائی۔

‘مانگل ‘نام کا صاف پانی کا یہ نالہ سال کے بارہ مہینے بہتا ہے جس میں پانی کم یا زیادہ ہوتا رہتاہے لیکن یہ 24گھنٹے بہتاہے، مانگل کے ارد گرد ایبٹ آبادسے ہری پور تک سیکڑوں دیہات اور بستیاں "مانگل”کے پانی سے مستفید ہوتی ہیں ،اس میں وافر مقدار میں مچھلیاں بھی اور دیگر آبی جاندار بھی موجود ہیں۔

مانگل ‘ کنارے آباد گاوں سیال کے وکیل دلاو ر تنولی ایڈووکیٹ ‘مانگل’ کی آلودگی پر نہ صرف سخت نالاں ہیں بلکہ انھوں نے اس آلودگی کے خاتمہ اور عوام میں شعور اجاگر کرنے کیلئے ایک پلیٹ فام سے جدو جہد بھی شروع کررکھی ہے انھوں نے "زمینی حقائق ڈاٹ کام ‘کے ساتھ اس حوالے سے خصوصی گفتگو کی۔

دلاور خان تنولی ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ دو دہائیاں قبل تک مانگل کا یہ پانی ہم پیتے بھی تھے اور مچھلیوں کی وافر مقدار سے بھی قریبی دیہات مستعفید ہوتے تھے لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے یہاں نہ صرف گندگی بڑھ گئی ہے بلکہ لوگ مچھلیوں کے غیر قانونی شکار یعنی کرنٹ، بارود اورکیمیکل استعمال کرکے مچھلیاں پکڑ تے ہیں اور مچھلیوں کی بھی نسل کشی ہو رہی ہے جب کہ دیگر جاندار بھی متاثر ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یہ بارود اور کیمیکل ملا پانی آگے چل کر آبی جانداروں کی موت کا بھی سبب بنتا اور پانی پینے کے قابل بھی نہیں رہتا، دلاور تنولی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ مچھلیوں کے ایسے شکار کی قانون میں6ماہ قید کی سزا ہے لیکن فشری ڈیپارٹمنٹ توجہ دلانے کے باوجود خواب خرگوش کے مزے لے رہاہے اور یہاں مچھلیوں کے ساتھ ساتھ انسانی زندگیاں بھی داو پر لگی ہیں۔

میرامظفر کے قریب وہ علاقہ جہاں مبینہ طور پر ویسٹ پھینکا جاتا ہے

انھوں نے بتایا کہ مانگل ایبٹ آباد کے پہاڑوں سے نکل کردواضلاع کے مضافات حسینیاں، زیارت میرا،چڑاچھ بحالی ، سیال، جنکیاری،برٹ، ، شیر بائی،شہید آباد،تندرا سے ہوتی ہوئی تربلا جھیل میں شامل ہو جاتی ہے مانگل نالہ کے بہنے کا سفر تقریباٰ 50 کلو میٹر سے زیادہ بنتاہے۔

دلاور تنولی ایڈووکیٹ نے ‘مانگل ‘ کے پانی کی آلودگی کے خاتمہ کیلئے ، انوائر منٹل پروٹیکشن سوسائٹی ، تشکیل دی ہے جس کا مرکزی ہدف ہی مانگل کے پانی کو آلودگی سے بچانا ہے اورا س تنظیم میں مانگل کے کنارے آباددیہات کے بااثر افراد کو شامل کیاہے تاکہ وہ اس مشن کیلئے کردار ادا کرسکیں۔

دلاور تنولی ایڈووکیٹ نے ، زمینی حقائق ، کو بتایا کہ مانگل کے پانی میں ایوب میڈیکل کمپلیکس اور دیگر نجی اسپتالوں کا ویسٹ ،پولیٹری صنعت کے کیمیکل اور گندگی،بعض علاقوں کا سیوریج بھی شامل ہو رہاہے لیکن خیبر پختونخواہ حکومت کا ادارہ انوائرمنٹل پروٹکیشن ایجنسی اختیارات کے باوجود ایکشن نہیں لے رہا ہے۔

‘مانگل’کے پانی میں ایبٹ آباد کے اسپتالوں کے ویسٹ ڈراپ اور کیمیکل شامل ہونے کے بارے میں ، ایوب میڈیکل کمپلیکس کے ڈین ڈاکٹر عمر فاروق نے بتایا کہ ہمارے اسپتال کا ویسٹ تو پالیسی کے مطابق سلہڈ کے مقام پر تلف کیا جاتاہے یہ مانگل میں شامل نہیں ہو رہا۔

جب اس صحافی نے ڈاکٹر عمرفاروق کے ساتھ ویسٹ پھینکے جانے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے سوال اٹھایاکہ یہ تو آپ کی پالیسی ہے کہ سلہڈ میں ویسٹ تلف کیا جائے اور اگر ویسٹ تلف کرنے والا عملہ ہی اپنی سہولت کیلئے قریب جگہ پھینکتا ہے تو وہ آپ سے پوچھ کر تو ایسا نہیں کریگا۔

ڈاکٹر عمر فاروق نے اس متوقع صورتحال کے حوالے سے محکمانہ انکوائری کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو متعلقہ عملے کے خلاف کارروائی کی جائے گی تاہم اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ یہاں ویسٹ کوئی اور پھینک رہاہو، تاہم انھوں نے ماحولیاتی ایشو اٹھانے کے عمل کو سراہا ۔

ایبٹ آباد : ڈاکٹر عمر فاروق ڈین ایوب ٹیچنگ اسپتال

یہ ‘مانگل’نالہ تین اضلاع کی سر سبز وادیوں اور سنگلاخ پہاڑوں سے چلتا ہوا جب گاوں مکری کے مقام پر پہنچتاہے تو سچا جبوڑی کے پہاڑی سلسلہ سے شروع ہونے والا دریائے سرن بھی ڈاڈر ، شنکیاری ، لساں نواب اور دیگر اہم علاقوں سے ہوتا ہوا اس سے آ ملتا ہے اور یہ پانی کچھ آگے چل کر’بیڑ’کے مقام پر تربیلا جھیل کا حصہ بن جاتاہے۔

مقامی شخص ذوالفقار علی نے بتایا کہ اسی ، مانگل ، کے پانی پر جگہ جگہ پن چکیاں یعنی جندر بھی ہیں جوکہ مکی اور گندم پیسنے کے قدرتی کارخانے ہیں جن کاانحصار پانی پر ہے اگر چہ آلودہ پانی سے جندر کو فرق نہیں پڑتا ہے تاہم جندر پر کام کرنے والے اور گاہک جو گھنٹوں آٹا پیسنے کا انتظار کرتے ہیں انھیں بھی اسی آلودہ پانی سے واسطہ پڑتاہے۔

پولٹری فارمز کے علاوہ کھانے پینے کی اشیاء تلف کرنے کا رجحان بھی مانگل اور دیگر برساتی نالوں کی طرف ہے ، اس کی بڑی وجہ یہاں متعلقہ سرکاری اداروں کی بے خبری اور خاموشی ہے۔کچھ عرصہ قبل تک ان علاقوں میں جنگلات کاٹ کر بیچنے کی بھی مہم چلی تھی تاہم محکمہ جنگلات کی کارروائی کے بعد یہ سلسلہ کافی حد تک رک گیاہے۔

انھوں نے بتایا کہ اگر صوبائی سطح پر آلودگی کے خاتمہ کیلئے کام کرنے والے ادارے اور فشریز ڈیپارٹمنٹ توجہ دے تو صاف پانی کے اس کے قدرتی زریعہ کو بچایا جاسکتاہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘مانگل کے ارد گرد کی زمینوں پر اب تو لوگ قبضے بھی کرنے لگے ہیں، بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ ہر غیر قانونی کام کا تجربہ اس مانگل پر ہی ہورہاہے ۔


جب ان سے ‘مانگل ‘کے پہاڑی اور ویر ان علاقے کے ایک حصہ جسے ،سوڑی مانگل، کہتے ہیں کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ یہاں پانی کے اطرف پہاڑوں پر جنگلی کبوتروں کے بسیرے تھے جو آج کل نظر نہیں آرہے تو جواب میں ذوالفقار علی نے بتایا کہ کبوتروں کے یہ گھونسلے کئی سو سال پرانے تھے اور لوگ یہاں سے کبوتر پکڑ کر فالج کے مریضوں کیلئے لے جاتے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ کبوتروں کے یہاں سے چلے جانے کی وجہ پانی کی آلودگی نہیں بلکہ غیر قانونی شکار تھا ہر تیسرے دن کوئی نہ کوئی گن اٹھا کر ان کے گھونسلوں کے سامنے جابیٹھتا تھا ، غیر قانونی شکار کرنے والوں نے منظم انداز میں جنگلی کبوتروں کی نسل کشی کی۔ بچے کھچے کبوتر 2005کے زلزلہ میں اس پہاڑ میں لینڈ سلائیڈنگ کے بعد خوف سے بھا گ گئے۔

علاقے کے مکینوں سے جب یہ سوال کیا گیا کہ آپ لوگ’مانگل’کا پانی آلودہ ہونے سے جب اتنے فکرمند ہیں تو پھر احتجاج کا راستہ کیوں نہیں اپناتے ،سڑکوں پر کیوں نہیں نکلتے تو اکثریت کا کہنا تھا کہ یہ سیکڑوں دیہات کا مشترکہ مسلہ ہے اس لئے کسی ایک گاوں کے لوگ اس کیلئے نہیں نکلتے ، تاہم اب فیصلہ کیاہے کہ یہ ایشو تب تک اجاگر کریں گے جب تک متعلقہ حکام ایکشن نہیں لیتے۔

Comments are closed.