امریکہ اور افغان طالبان کا امن معاہدہ ٹوٹنے کا امکان

فوٹو : فائل

اسلام آباد(زمینی حقائق ڈاٹ کام)افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ ختم ہونے کا امکان ہے جبکہ دوسری طرف امریکا نے کہا کہ یہ معاہدے پر عملدرآمد نہیں کررہے، تاہم مئی تک فوجیں واپس نہیں جائیں گی.

سی این این کے مطابق ترجمان پینٹا گون کا میڈیا بریفنگ میں کہنا ہے کہ امریکا کی جوبائیڈن حکومت مئی میں افغانستان سے مکمل طور پر فوجی انخلاء کا کوئی وعدہ نہیں کرے گی۔

واضح کیا گیا ہے کہ امریکا مئی تک افغانستان سے اپنی فوجیں واپس نہیں لے کر جائے گا، کیونکہ طالبان نے امریکا کے ساتھ معاہدے کی پاسداری نہیں کی۔

خیال رہے افغان طالبان کے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ کے تحت فروری 2020 میں امن معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے، معاہدے میں طالبان کے ساتھ پرتشدد اور دہشتگردی کی کاروائیوں کو روکنے اور کالعدم تنظیموں سے تعلقات منقطع کرنے کا طے پایا تھا۔

معاہدے پر عملدرآمد کی صورت میں امریکی فوج کا مئی تک افغانستان سے انخلاء ہوجانا تھا لیکن اب امریکا نے اعلان کیا ہے کہ مئی2021ء تک فوجیں وہاں موجود رہیں گی۔
اس حوالے سے اردو پوائنٹ کی رپورٹ کے مطابق ترجمان پینٹاگون نے کہا ہے کہ طالبان نے دہشتگرد کاروائیاں اور افغان نیشنل سکیورٹی فورسز پر حملے روکنے کیلئے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا ہے۔

جس کے باعث مذاکرات کو آگے بڑھانا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے باوجود امریکا افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کیلئے پرعزم ہے۔

اسی طرح افغانستان میں امن کے لیے بین الافغان مذاکرات 12 ستمبر 2020ء کو دوحہ قطر میں شروع ہوئے تھےبین الافغان مذاکرات فریقوں کے درمیان یہ اہم براہ راست مذاکرات افغانستان میں دائمی امن لانے کی جانب پیش قدمی کی علامت قرار دیا گیا۔

ادھرافغان طالبان نے امریکا پر الزام عائد کیا کہ واشنگٹن معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کررہا ہے۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق طالبان کا بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب پیٹناگون نے کہا کہ طالبان معاہدے کی شرائط کو مکمل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

اس ضمن میں قطرمیں طالبان کے ایک ترجمان محمد نعیم نے کہا کہ ‘امریکا نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور تقریباً ہر روز وہ عام شہریوں، گھروں اور دیہاتوں پر بمباری کر رہے ہیں اور ہم نے وقتا فوقتا انہیں آگاہ کیا ہے.

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر مزید کہا کہ امریکا کی جانب سے الزامات بے بنیاد ہیں اور طالبان معاہدے کی مکمل طور پر پاسداری کررہے ہیں۔

پینٹاگون کے چیف ترجمان جان کربی نے کہا کہ امریکا فوج کے انخلا کے لیے پرعزم ہے لیکن معاہدے میں طالبان سے بھی مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ القاعدہ کے ساتھ تعلقات منقطع کریں اور تشدد کو کم کریں۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی ترک کرنے اور افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کے خلاف پرتشدد حملوں کو روکنے سے متعلق اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے بغیر مذاکرات کے حل کے لیے راستہ نکالنا بہت مشکل ہے۔

خیال رہے کہ امریکی فوج نے حالیہ مہینوں میں کچھ صوبوں میں افغان فورسز کے دفاع میں طالبان جنگجوؤں کے خلاف فضائی حملے کیے ہیں۔

یاد رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان رواں سال 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ ہوا تھا جس میں طے پایا تھا کہ افغان حکومت طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرے گی جس کے بدلے میں طالبان حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کریں گے۔

قیدیوں کے تبادلے کا عمل 10 مارچ سے قبل مکمل ہونا تھا اور طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا تاہم متعدد مسائل کی وجہ سے یہ عمل سست روی کا شکار ہے۔

Comments are closed.